إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں (١) وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں (٢) (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ (٢) تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ (٣) وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔ (٤)
فہم القرآن : ربط کلام : دلائل اور حقائق کو جھٹلانے والے لوگوں کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے توحید و رسالت اور قیامت کے دن لوگوں کو زندہ کرنے کے سینکڑوں دلائل دیئے ہیں جن میں عقلی ا ور نظری دلائل بھی شامل ہیں۔ نظری دلائل میں سے آسمان سے بارش نازل کرنا اور اس کے ذریعے زمین سے ہرقسم کی نباتات کو اگانا ہے۔ کافر ہو یا مسلمان ہر کوئی مانتا ہے کہ بارش نازل کرنا اور زمین سے نباتات کو اگانا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ مگر اس کے باوجود کافر ” اللہ“ کی ذات کا انکار کرتا ہے اور مشرک اسکے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے۔ اور اس کی آیات کو غلط معانی پہنچاتے ہیں ایسے لوگ اور ان کے خیالات اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ بھلا جو شخص جہنّم کی آگ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا جو قیامت کے دن امن وسکون سے ہوگا وہ بہتر ہے ؟ ٹھوس دلائل اور واضح حقائق ہونے کے باوجود کافر اور مشرک نہیں مانتے تو انہیں انتباہ فرمائیں کہ جو چاہوعمل کرو لیکن اس بات پر یقین رکھو کہ جو بھی تم عمل کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہاں توحید و رسالت اور قیامت کا انکار کرنے والوں کے لیے ” اِلْحَادْ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ ” اللہ“ کے احکام اور ارشادات کی غلط تأویل کرنا اور اس پر اصرار کرنا۔ جس طرح بےدین سائنسدان ایٹم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ دنیا کو پیدا کرنے والا کوئی نہیں۔ مادہ خود بخود اپنی حالت بدلتارہتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور اس کی کوئی ابتدا اور انتہانہیں۔ مشرک یہ کہہ کر ” اللہ“ کی ذات اور صفات کا انکار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی ریاضت سے خوش ہو کر انہیں اپنی خدائی میں شامل کر رکھا ہے۔ اسی طرح کافر اپنے کفر اور مشرک اپنے شرک پر اصرار کرتا ہے۔ ]الانعام:59] اور اس کے پاس غیب کی چابیاں ہیں انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتانہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی تر اور خشک دانہ نہیں مگر وہ ایک وضح کتاب میں لکھا ہے۔‘‘ مسائل : 1۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی من گھڑت تاویلیں کرتے ہیں حقیقت میں وہ کج روی کا شکار ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سے کسی کی نیت اور عمل پوشیدہ نہیں رہتا۔ 3۔ کیا جہنّم کی آگ میں جانا بہتر ہے یا ہر قسم کے خوف سے مامون ہونا بہتر ہے؟ 4۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا اور جانتا ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور دیکھتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (البقرۃ: 187) 2۔ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اللہ جانتا ہے۔ (النور : 41) 3۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ: 7) 4۔ اللہ پر بھروسہ کیجیے کیونکہ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ (الانفال : 61) 5۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (النور : 18) 6۔ اللہ دیکھنے والا ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں۔ (آل عمران : 163) 7۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات : 16) 8۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے وہی غیب کو جاننے والا ہے۔ (التوبۃ: 78) 9۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الحج : 70) 10۔ اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النحل : 74) 11۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے واقف ہے۔ (البقرۃ : 235) 12۔ اللہ سے ڈرؤ اور جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (البقرۃ: 233) 13۔ اللہ ہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہی تمھارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (آل عمران : 156) 14۔ بے شک جو وہ عمل کرتے ہیں اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔ (ھود : 111)