وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی (١) برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہوجائے گا جیسے دلی دوست۔ (٢)
فہم القرآن : (آیت34سے35) ربط کلام : داعئ حق کے لیے بنیادی ہدایت۔ ایک داعی کو اپنی دعوت کے دوران اس بات کو ہمیشہ مدِّ نظر رکھنا چاہیے کہ اچھائی اور برائی، نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ برائی پر چلنے اور اس کا پرچار کرنیوالے لوگ ہمیشہ جلد باز اور جذباتی ہوتے ہیں بالخصوص مشرک کی فطرت ہے کہ وہ شرک اور غیر اللہ کی محبت میں بڑا غالی اور جذباتی ہوتا ہے۔ جونہی اس کے سامنے اللہ وحدہٗ لاشریک کی بات کی جائے تو وہ سیخ پا ہوجاتا ہے اور توحید بیان کرنے والے کو بزرگوں کا گستاخ اور بے ادب کہتا ہے۔ اس کے لیے وہابی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ جس طرح نبی اکرم (ﷺ) کے دور میں صحابہ کرام (رض) کو مکہ کے کافرصابی کہتے تھے ہر دور میں مشرک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں داعی کے لیے بات کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔ داعی کی دانش اور حکمت یہ ہونا چاہیے کہ وہ اشتعال انگیز ماحول بنانے سے اجتناب کرے۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ اور بڑے حوصلے کی ضرورت ہے یہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے داعی کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات پختہ رہنی چاہیے کہ اچھائی اور برائی برا بر نہیں ہوتے۔ اچھائی کی اشاعت کے لیے تین باتیں ضروری ہوتی ہیں۔1 الدّاعی کا اخلاق اور کردار اچھا ہونا چاہیے۔2 ۔الدّاعی کو اپنا حوصلہ بڑا رکھنا چاہیے۔3 ۔الدّاعی کو اچھے ماحول میں بہتر سے بہتر سلیقہ کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ اپنانا چاہیے۔ اس کے باوجود اگر کوئی اچھائی کا جواب برائی سے دیتا ہے تو پھر بھی برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ بُرائی کا جواب برائی کے ساتھ دینے سے ماحول میں تلخی بڑھتی ہے اور جس قدر ماحول میں تلخی بڑھے گی اسی قدر ہی داعی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ اس لیے داعی کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالنے کی کوشش کرے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر زیادتی کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ وہ اور اس کے ساتھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو شخص تعصّب اور کسی مفاد کے بغیر ہماری خیر خواہی کر رہا ہے اور ہماری زیادتی کا جواب حسن سلوک سے دیتا ہے یقیناً وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔ داعی جن لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے مخاطب کررہا ہے۔ اگر وہ طبقہ نرم نہیں ہوتا تو بالآخر ان میں سے کچھ لوگ ضرور متوجہ ہوں گے جو اس کے ہمسفر ہوجائیں گے۔ اس کی ہر دور میں بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں۔ دور نہ جائیں آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے کسی مسجد میں توحیدوسنت کی بات کی جاتی تو بات کرنے والے کو مسجد سے اٹھا کرباہر پھینک دیا جاتا تھا اور لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے مسجد کو دھویا جاتا تھا۔ لیکن آج لوگ قرآن و سنت کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا، زیادتی کے مقابلے میں خیر خواہی کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔ یہ وہی مبلّغ اور کارکن کرسکتا ہے جسے اپنا مشن عزیز اور اپنے رب کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ ورنہ دوسرا شخص مخالف کی بات کو اپنی انا کا مسئلہ اور اپنے دھڑے کے لیے ذلّت سمجھتا ہے۔ بعض اَن پڑھ مبلّغ اور جذباتی کارکن کسی ایک صحابی کے ذاتی اور انفرادی واقعہ کو دلیل بنا کر اسے تبلیغ پر چسپاں کرتے ہیں۔ حالانکہ تبلیغ کے میدان میں پیغمبر اسلام (ﷺ) اور کسی صحابی نے گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا۔ یہاں تک کہ نبی کریم (ﷺ) نے ذاتی معاملات میں بھی کسی صحابی کی طرف سے گالی کا جواب گالی سے دینا پسند نہیں فرمایا۔ حالانکہ اس کی ایک حد تک گنجائش بھی پائی جاتی ہے۔ مسائل : 1۔ نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتے۔ 2۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا چاہیے۔ 3۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا مخالف کو اپنا گرویدہ بنانا ہے۔ 4۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینے والا بڑے حوصلے کا مالک اور خوش نصیب ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن : مبلّغ کے لیے ہدایات : 1۔ اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو حکمت اور اچھے طریقے سے بلائیں۔ (النحل : 125) 2۔ فرما دیجیے یہ میرا راستہ ہے میں اس کی طرف بصیرت کے ساتھ بلاتاہوں۔ (یوسف : 108) 3۔ آپ انہیں دین حق کی طرف بلائیں اور اللہ کے حکم پر قائم رہیں۔ (الشوریٰ : 15) 4۔ حضرت ابراہیم نے دعا کی کہ اے رب ان میں نبی بھیج جو ان کو علم اور عقل کی باتیں سکھلائے۔ ( البقرۃ: 129) 5۔ داعی اور قائد کو ہمدرد ہونا چاہیے۔ (التوبۃ: 128) 6۔ قائد میں عفو ودرگزر کا جذبہ ہونا چاہیے۔ (المائدۃ: 13) نوٹ : مزید ہدایات سورۃ مزمل اور مدثر کی ابتدائی آیات میں ملاحظہ فرمائیں۔