وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں (١)
فہم القرآن : ربط کلام : ایمانداروں میں اعلیٰ کردار اور بلند مقام کے حامل حضرات۔ اپنے رب پر ایمان لانا اور اس پر مرتے دم تک قائم رہنا بہت بڑاکام اور مقام ہے۔ مگر ایک جماعت ان حضرات سے بھی ارفع مقام کی حامل ہے اور ہوگی جن کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے کہ یہ لوگ قول اور کردار کے لحاظ سے دوسرے مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ جس نے اسلام قبول کیا اور پھر لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور خود صالح اعمال کرتا رہا۔” اللہ“ کی طرف بلانے سے مراد اس کے دین کی بلامفاد اور پوری جانفشانی کیساتھ دعوت دینا ہے۔ جس میں سرِفہرست رب کی توحید کی دعوت ہے۔ کیونکہ دین کی ابتدا اور اس کی انتہا توحید پر رکھی گئی ہے۔ اسلامی انقلاب اور اصلاح انسان کے لیے اس سے بہتر اور زودِاثر کوئی دعوت نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے تمام انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اے رسول ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔“ (الانبیاء :25) اسی بنا پر آپ (ﷺ) نے مکہ میں تیرہ سال اسی بات پر زور دیا اور ماریں کھائیں۔ اگر آپ اپنی دعوت میں کسی اور بات کو سرفہرست رکھتے تو اتنی تکلیفیں کبھی نہ اٹھانا پڑتیں۔ توحید میں بھی سر فہرست توحید الوہیّت کو رکھا۔ اس لیے پوری امت کے اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت کے پہلے حضرت سرور دو عالم (ﷺ) ہیں۔ جنہوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے اور صالح نمونہ پیش کرنے کا حق ادا کردیا۔ پھر آپ کے صحابہ کرام (رض) کی عظیم جماعت ہے جنہوں نے دعوت الیٰ اللہ کی خاطر وہ تکالیف بردشت کیں اور مال و جان کی قربانیاں دیں۔ جس کی مثال قیامت تک کوئی شخص پیش نہیں کرسکتا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) بَعَثَ مُعَاذًا (رض) إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ ادْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِیْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی دعوت مان لیں تو انہیں بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ آپ کی اس بات میں اطاعت کریں تو انہیں بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں کو دی جائے گی۔“ (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِیُّ (ﷺ) یَوْمَ النَّحْرِ فَإِنَّ دِمَآءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی] ” حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے لیے آج کا دن، مہینہ اور یہ شہر قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں نے ” اللہ“ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا ہاں۔“ مسائل : 1۔ سب سے بہتر دعوت اللہ کی توحید کی دعوت ہے۔ 2۔ توحید پورے دین کی بنیاد ہے۔ 3۔ بہترین مبلّغ وہ ہے جو اپنی دعوت میں توحید کو سرِفہرست رکھے اور خود بھی دین پر عمل کرے۔ تفسیربالقرآن : احسن قول اور احسن مسلمان : 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن التقویم بنایا ہے۔ ( التین : 4) 2۔ اللہ تعالیٰ نے احسن حدیث اتاری ہے۔ (الزمر : 33) 3۔ اللہ تعالیٰ نے موت وحیات اس لیے بنائے تاکہ انسان احسن عمل کرئے۔ ( الملک : 2) 4۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا احسن بات ہے۔ (حم ٓ السجدۃ: 33) 5۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا احسن ہے۔ (حم ٓ السجدۃ: 34) 6۔ جھگڑے کی بجائے احسن انداز اختیار کرنا۔ (النحل : 125)