وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ
اور کافروں نے کہا اس قرآن کی سنو ہی مت (١) (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بے ہودہ گوئی کرو (٢) کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ (٣)
فہم القرآن : (آیت26سے28) ربط کلام : جس طرح پہلے لوگ گمراہ ہوئے اسی طرح ہی اہل مکہ نے گمراہی اختیار کی۔ ابھی بیان ہوا ہے کہ جو لوگ اپنے لیے گمراہی کا راستہ پسند کرتے ہیں ان کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بنا دیئے جاتے ہیں۔ جس کے لیے شیطان برے اعمال خوبصورت بنا دے پھر اسے سمجھ نہیں رہتی کہ میں کس قدر گمراہی میں آگے نکل چکا ہوں۔ یہی صورت حال اہل مکہ کی تھی۔ اللہ کے نبی (ﷺ) انہیں قرآن مجید اس لیے سناتے تھے تاکہ یہ لوگ گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر صراط مستقیم پر آجائیں۔ آپ کی تلاوت سن کر لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ آپ کی طرف متوجہ ہورہا تھا۔ یہاں تک کہ نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں ابوجہل کے بھتیجے بھی مسلمان ہوچکے تھے۔” قرآن“ کے انقلاب کو روکنے کے لیے کفار نے یہ حربہ بھی استعمال کیا کہ اس کے مقابلے میں شورو غوغا کرو تاکہ تمہاری آواز قرآن کی دعوت پر غالب رہے۔ اندازہ لگائیں کہ اہل مکہ کس قدر گمراہ ہوچکے تھے کہ وہ قرآن مجید کے بارے میں ایک دوسرے کو کہتے کہ جب محمد (ﷺ) تمہارے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کریں اسے تو خاموشی سے سننے کی بجائے جواب میں شورو غوغا کیا کرو تاکہ تمہاری آواز قرآن مجیدکی تلاوت اور دعوت پر غالب رہے۔ اس کے جواب میں قرآن مجیدنے انہیں ایک بار پھر سمجھایا۔ ” کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ (الاعراف :204) لیکن اس کے باوجود کفار شوروغوغا کرنے سے باز نہ آئے۔ جس پررب ذوالجلال نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنے کفر پر ڈٹے رہے تو ہم ان کو ان کے برے اعمال کے بدلے شدید ترین عذاب میں مبتلا کریں گے۔ یہ اللہ کے دشمن ہیں اس لیے انہیں جہنّم کی آگ میں جھونکا جائے گا جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ سورۃ مبارکہ مکہ میں نازل ہوئی اور ان آیات کا سیاق و سباق بتلارہا ہے کہ اہل مکہ قرآن مجید کے جواب اور اس کی تاثیر کے مقابلے میں بے بس ہوچکے تھے جس بنا پر وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ اس کے لیے انہیں سمجھایا گیا ہے کہ اللہ کے غضب کو چیلنج کرنے کی بجائے اس کا رحم مانگو ! جو قرآن مجید سننے اور اس پر عمل کرنے سے نصیب ہوگا۔ قرآن مجید کی تلاوت کے اثرات اور برکات : ” حضرت ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ ایک آدمی اپنے گھر میں سورۃ الکہف کی تلاوت کر رہا تھا۔ اس کے گھوڑے نے بدکنا شروع کردیا تو اس نے سلام پھیر کر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے بادلوں کا ایک ٹکڑا نظر آیا جو اسے ڈھانپے ہوئے تھا۔ اس نے اس کا تذکرہ نبی (ﷺ) کے سامنے کیا آپ نے فرمایا کہ آپ کو تلاوت کرتے رہنا چاہیے تھا یہ تو سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہوئی تھی۔“ [ رواہ البخاری : باب علاَمَات النُّبُوَّۃِ فِی الإِسْلاَمِ] مسائل : 1۔ کفار ایک دوسرے کو قرآن سننے سے منع کرتے تھے۔ 3۔ قرآن مجید کا مقابلہ کرنے والوں کو سخت ترین عذاب ہوگا۔ 2۔ کفار نے قرآن مجید پر غالب آنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ 4۔ قرآن مجید کی مخالفت کرنے والے ” اللہ“ کے دشمن ہیں جنہیں جہنّم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ تفسیربالقرآن : قرآن مجید کے بارے میں منافقین اور کفار کا رویہ : 1۔ جب قرآن سنایا جاتا تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبۃ: 127) 2۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے ؟ (التوبۃ: 124) 3۔ جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے تو یہ بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبۃ: 86) 4۔ جب قرآن میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ (سورہ محمد : 20) 5۔ کفار کہتے کہ اس قرآن کو بدل دو۔ ( یونس : 15)