وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کر رکھے تھے جنہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا رکھے (١) تھے اور ان کے حق میں بھی اللہ کا قول امتوں کے ساتھ پورا ہوا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی گزر چکی ہیں۔ یقیناً وہ زیاں کار ثابت ہوئے۔
فہم القرآن : ربط کلام : جب انسان فکری اور اعتقادی طور پر اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیتا ہے تو پھر وہ اپنے نظریات اور معاشرے کی رسومات کو اپنے لیے حرف آخر سمجھتا ہے اور یہ چیز اس پر اس طرح مسلط ہوجاتی ہے کہ وہ اس کے سوا کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتا ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بھی کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ انسان میں لاپرواہی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی برا کام اس کے لیے فیشن بن جاتا ہے۔ جو لوگ قیامت کے حساب اور اپنے رب کو بھول جاتے ہیں۔ ان پر شیطان مسلّط کردیا جاتا ہے۔ جس پرشیطان مسلّط کردیاجائے۔ تو اس کی سوچ، کردار اور ماحول برا بن جاتا ہے۔ اگر حکمران ہے تو اس کے وزیر، مشیر، اس کے برے کاموں کی تعریف کرتے ہیں اور اسے باور کرواتے ہیں کہ آپ اور ملک لازم ملزوم ہیں۔ آپ کے جانے کے بعد ملک کا برا حال ہوجائے گا۔ اگر وہ کسی جماعت، قبیلے کا سربراہ ہے تو اس کے حواری کہتے ہیں کہ آپ تو جماعت اور قبیلے کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک وہ شخص لوگوں کی نظروں میں ذلیل نہیں ہوجاتا۔ جوں ہی وہ ذلّت کے گھاٹ اترتا ہے جو اس کی تعریف کرنے والے اس کی جگہ لینے والے کی تعریفیں کررہے ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو غلط کاموں اور خوشامد میں لذّت محسوس ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے جنوں اور انسانوں کے پہلے گروہ گمراہ ہوئے اور انہیں کے گناہوں کے اثرات کے وجہ ان کی آنے والی نسلیں گمراہی کا شکار ہوئیں۔ قیامت کے دن یہ لوگ یقیناً نقصان پانے والے ہیں۔ یہ بات فہم القرآن کے کئی مقامات پر عرض کی ہے کہ جب گمراہی کی نسبت ” اللہ“ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا معنٰی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کے حوالے کردیتا ہے جو گمراہی اور تباہی کا آخری درجہ ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اپنے رب سے سچی توبہ اور برے ماحول سے نکل جائے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِِ وَالسُّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّآ أَنْ یُّحْذِیَکَ وَإِمَّآ أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإِمَّآ أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًاطَیِّبَۃً وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّآ أَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًاخَبِیْثَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب المسک] ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اچھے اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری بیچنے والا یاتجھے تحفہ دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا تم اس سے اچھی خوشبو پاؤ گے اور بھٹی پھونکنے والا یا تمہارے کپڑوں جلا دے گا یا تو اس سے بری بو محسوس کرے گا۔“ [ الزخرف : 36] ” جو شخص رحمن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے ہم شیطان کو اس کا ساتھی بنا دیتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ برے لوگوں کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بنا دئیے جاتے ہیں۔ 2۔ برے لوگوں پر اللہ کا عذاب برحق ثابت ہوتا ہے۔ 3۔ برے جنّات اور انسان ناقابل تلافی نقصان پائیں گے۔ تفسیربالقرآن : دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : 1۔ اللہ کفار کے اعمال دنیا میں تباہ کرے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (التوبۃ: 69) 2۔ اسلام کا انکار کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (البقرۃ : 121) 3۔ اسلام کے بغیر دین تلاش کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (آل عمران : 85) 4۔ شیطان کی تابعداری کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (المجادلۃ: 19) 5۔ مشرک نقصان پائیں گے۔ (الزمر : 65) 6۔ کافر نقصان پائیں گے۔ (النحل : 109) 7۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف : 23) 8۔ جس نے اللہ کے سوا شیطان کو دوست بنالیا اس نے بہت نقصان پایا۔ (النساء : 119) 9۔ ان لوگوں نے نقصان پایا جنہوں نے اللہ کی ملاقات کی تکذیب کی۔ (الانعام : 31)