سورة فصلت - آیت 13

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اب یہ روگردان ہوں تو کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں اس کڑک (عذاب آسمانی) سے اتارتا ہوں جو مثل عادیوں اور ثمودیوں کی کڑک کے ہوگی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت13سے14) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرتیں دیکھنے اور اس کی نعمتیں استعمال کرنے کے باوجود جو لوگ اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں۔ انہیں قوم عاد اور قوم ثمود کے انجام پر نظر رکھنا چاہیے۔ اے نبی (ﷺ) ! آپ کے مخاطبین ہر قسم کے دلائل سُننے اور حقائق جاننے کے باوجود اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں تو انہیں فرما دیں کہ میں نے تمہیں قوم عاد اور قوم ثمود کے دھماکوں سے ڈرا دیا ہے۔ ان کے پاس اور ان کے بعد رسول آئے اور انہوں نے زندگی بھر انہیں دعوت دی کہ اللہ کے سوا نہ کسی کو معبود مانو اور نہ کسی اعتبار سے ان کی بندگی کرو۔ قوم عاد اور ثمود نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا اگر واقعی ” اللہ“ اپنا پیغام پہنچانا چاہتا تو تمہاری بجائے ہمارے پاس فرشتے بھیجتا۔ جس چیز کی تم دعوت دیتے ہو ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حق کے منکرین کی شروع سے یہ عادت ہے کہ وہ رسولوں کو انسان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ فرق صرف یہ ہے پہلے لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی نبوت کا اس لیے انکار کرتے تھے کہ بشر نبوت جیسے عظیم منصب پر فائز نہیں ہوسکتا اور آج کلمہ پڑھنے والے بعض مسلمان کہتے ہیں کہ نبی (ﷺ) کو بشر کہنا آپ کی توہین ہے۔ فرق یہ ہے کہ اہل مکہ آپ کو بشر مانتے تھے لیکن رسالت کا انکار کرتے تھے۔ آج کچھ مسلمان آپ کی نبوت مانتے ہیں لیکن بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کا ذکر فرما کر اپنی کبریائی کا اشارہ کیا اور بتلایا کہ قوم عاد اور قوم ثمود بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے۔ اور اہل مکہ بھی اپنے اپ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ جس طرح قوم عاد اور ثمود کا برا انجام ہے اسی طرح مکہ والے بھی برے انجام کو پہنچے گے۔ مسائل : 1۔ قوم عاد اور قوم ثمود کی تباہی سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ 2۔ کفار نے انبیاء (علیہ السلام) کی نبوت کا اس لیے انکار کیا کہ وہ انسان تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اس لیے مبعوث فرمائے تاکہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے۔ تفسیربالقرآن : نبوت کو تسلیم نہ کرنے کے بہانے : 1۔ مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے۔ (النحل : 35) 2۔ عنقریب مشرکین کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ (الانعام : 148) 3۔ کفار نے کہا ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لیے کوئی چشمہ جاری نہ کر دے۔ (بنی اسرائیل : 90) 4۔ مشرکین نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ پر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ (ھود : 12) 5۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ (البقرۃ: 55) 6۔ قرآن کے نزول کے وقت منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبۃ: 127) 7۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا؟ (التوبۃ: 124) 8۔ جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول سے مل کر جہاد کرو تو منافق بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبۃ: 86) 9۔ جب کوئی محکم سورۃ نازل ہوتی اور اس میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ (سورہ محمد : 20)