سورة غافر - آیت 56

إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۙ إِن فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو لوگ باوجود اپنے پاس کسی سند کے نہ ہونے کے آیات الٰہی میں جھگڑا کرتے ہیں ان کے دلوں میں بجز نری بڑائی کے اور کچھ نہیں وہ اس تک پہنچنے والے ہی نہیں (١) سو تو اللہ کی پناہ مانگتا رہ بیشک وہ پورا سننے والا اور سب سے زیادہ دیکھنے والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح راہنمائی آجانے کے باوجود جو لوگ اس کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کے دلوں میں کبر ہوتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ ان کے پاس جھگڑا کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ سوائے اس کے کہ ان کے دلوں میں یہ خواہش اور کوشش ہے کہ حق پر غالب آجائیں اور نبی (ﷺ) سے بڑا بن جائیں۔ مگر ان کی خواہش کبھی پوری نہ ہو پائے گی۔ اے رسول (ﷺ) ” آپ“ ہر قسم کے کبر، فخر سے پناہ مانگیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات کوسننے اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے ساتھ جھگڑا کرنے والوں کے پاس تکبر کے سوا کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی۔ کِبر کی بنیاد عام طور پر دوباتوں پر ہوتی ہے۔ پہلی وجہ ہے کہ آدمی دوسرے کو اپنے آپ سے نیچ سمجھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تکبر کرنے والا اپنے نظریات کو سچی بات پر مقدم جانتا ہے۔ اہل مکہ میں دونوں گناہ پائے جاتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے واقعی ہی کسی شخص کو نبی بنانا ہوتا تو وہ عمرو بن ہشام (ابوجہل) یا پھر طائف کے سردار اس لائق تھے کہ ان میں سے کسی کو نبی بنایا جاتا۔ مکہ والوں میں یہ کبر بھی پایا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کیا ہم محمد (ﷺ) کے کہنے پر اپنے آباء اجداد کا دین چھوڑ دیں۔ اس کبر کی وجہ سے مکہ کے کئی سردار ہدایت سے محروم رہے۔ اللہ تعالیٰ کو کبر پسند نہیں۔ اس لیے نبی اکرم (ﷺ) کو حکم دیا گیا کہ آپ اللہ کے حضور کبر سے پناہ مانگا کریں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون کس نیت کے ساتھ بات کرتا ہے اور حق کی مخالفت کرتا ہے اور حق کی مخالفت کرنے والے دل میں کیا جذبات چھپے ہوئے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ () قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُونَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے عرض کی کہا بلاشبہ ہر آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں، نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ نبی (ﷺ) کی دعا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ () یَتَعَوَّذُ بِہَؤُلاَءِ الْکَلِمَاتِ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَسُوءِ الْکِبَرِ وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ)[ رواہ النسائی : باب الاستعاذۃ من شر الکبر] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) ان کلمات کے ساتھ پناہ مانگا کرتے تھے ” اے اللہ! میں سستی، بڑھاپے، بزدلی، بخیلی، تکبرکی برائی، دجّال کے فتنہ اور قبرکے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا یا ان کا انکار کرنا آیات کے ساتھ جھگڑا کرنے کے مترادف ہے۔ 2۔ تکبر انسان کو حق بات قبول کرنے نہیں دیتا۔ 3۔ تکبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والاہے۔ تفسیربالقرآن : کبر کا گناہ اور اس کے نقصانات : 1۔ اللہ تعالیٰ فخر وغرور کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء :36) 2 اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں دیا ہے اس پر نہ اتراؤ اللہ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید :23) 3۔ زمین میں اکڑ اکڑ کر نہ چل تو زمین کو پھاڑ نہیں سکتا۔ (بنی اسرائیل :37) 4۔ زمین میں اکڑاکڑکر نہ چل اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمان :18) 5۔ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جودنیا میں تکبر اور فساد نہیں کرتے۔ (القصص :83)