سورة غافر - آیت 34

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لے کر آئے، (١) پھر بھی تم ان کی لائی ہوئی (دلیل) میں شک و شبہ ہی کرتے رہے (٢) یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی (٣) تو کہنے لگے ان کے بعد تو اللہ کسی رسول کو بھیجے گا ہی نہیں (٤)، اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے والا شک شبہ کرنے والا ہو (٥)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت34سے35) ربط کلام : مرد مومن کا خطاب جاری ہے۔ مرد مومن نے مصر کی پرانی تاریخ کا حوالہ دے کر اپنی قوم کو سمجھایا کہ یاد کرو ! جب تمہارے پاس اس سے پہلے یوسف (علیہ السلام) کھلے دلائل کے ساتھ آئے تھے۔ تم نے ان کے بارے میں بھی شک کا اظہار کیا تھا۔ جب یوسف (علیہ السلام) فوت ہوگئے تو تم کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعد کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جو حق بات میں شک کرنے والے اور حد سے تجاوز کرنے والے ہوتے ہیں اور بغیر کسی دلیل کے اللہ کے احکام اور ارشادات کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ بلاجواز جھگڑنا اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کے نزدیک بڑی بری بات ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فعل کی وجہ سے مغرور انسان کے دل پر گمراہی کی مہر ثبت کردیتا ہے۔ ” اللہ“ کی ناراضگی تو واضح ہے کیونکہ وہ ہر برے کام پر ناراض ہوتا ہے۔ مومنوں کی ناراضگی کا اس لیے حوالہ دیا گیا ہے کہ مومن کی خوشی اور ناراضگی اپنے رب کی خوشی اور ناراضگی کے تابع ہوتی ہے۔ مرد مومن نے یہ بات بھی کھلے الفاظ میں فرعون اور اپنی قوم کو سمجھائی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پر تمہیں ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اس لیے تمہارے نظریات اور کردار پر اعتراض کرتے اور ناراض ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے عقائد اور کردار پر ناراض ہے۔ مرد مومن نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حوالہ اس لیے دیا کہ مصرکے خاص و عام یوسف (علیہ السلام) کے جمال اور کمال سے پوری طرح آگاہ تھے۔ مصر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن کے چرچے اور ان کی پاکدامنی کے قصّے لوگوں کی زبان پر عام تھے۔ ان کے نظام حکومت کی خوبیاں اور عدل و انصاف کے واقعات نسل در نسل تاریخ کا حصہ بن چکے تھے۔ یوسف (علیہ السلام) کے بعد اس طرح نہ مصر کی خوشحالی باقی رہی اور نہ ہی ان جیسا کوئی عدل و انصاف قائم کرسکا۔ تاریخ میں یوسف (علیہ السلام) کا دور مصر کا سنہری دورشمار ہوتا ہے۔ اس بنا پر ہر سمجھدار شخص کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ناراض ہوچکا ہے لہٰذا اب کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ کیونکہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی قدر نہیں کی تھی جس وجہ سے اب رسول نہیں آئے گا۔ اس کا یہ معنٰی بھی کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا نہ یوسف (علیہ السلام) جیسا رسول آئے گا اور نہ ہی ہم اس پر ایمان لائیں گے۔ بندہ مومن نے یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی۔ اے میری قوم لوگو! اب تو موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لاچکے ہیں۔ لہٰذا پہلے کی طرح شک کرنے سے بچو اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاؤ۔ گویا کہ اس نے بین السطور یہ بات سمجھا دی کہ فرعون کے پیچھے مت چلو۔ یہ مغرور اور متکبر آدمی کا راستہ ہے۔ جو خود گمراہ ہے اور لوگوں کو گمراہ کررہا ہے۔ اس مومن نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ تم نے یوسف (علیہ السلام) کو بھی شک کی نظر دیکھا تھا۔ حالانکہ یوسف (علیہ السلام) کئی صدیاں پہلے فوت ہوچکے تھے۔ مومن کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ تمہارے باپ دادانے یوسف (علیہ السلام) پر شک کیا اور تم موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر شک کررہے ہو۔ حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی وہی دعوت دے رہے ہیں جو یوسف (علیہ السلام) نے جیل کی کال کوٹھڑی میں قیدیوں کو اور مصر کے بادشاہ بننے کے بعد پوری قوم کو دی تھی۔ انہوں نے یوسف (علیہ السلام) پر الزام لگا یا اور انہیں جیل بھیج دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو باعزت جیل سے نکال کر بادشاہ بنا یا۔ تم بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر الزام لگاتے ہو اور اسے قتل کرنے کے درپے چکے ہو۔ سوچو اور غور کرو! مرد مومن نے یوسف (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر اپنی قوم کو فرعون اور قوم کے نمائندوں کو خطاب فرمایا اور بتلایا کہ گمراہی کا دوسرا نام شک ہے۔ گویا کہ ہدایت یقین سے حاصل ہوتی ہے لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات اور بات پر یقین کرو۔ نبی معظم (ﷺ) بھی اپنی قوم کے ہاتھوں ایسی صورت حال سے دوچار تھے۔ جس بنا پر یہ واقعات بیان کیے جارہے ہیں۔ دل پر گمراہی کی مہر لگنا : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ () قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ İ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ Ĭ)[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) اپنی قوم کے سامنے حق پیش کرتے رہے لیکن لوگوں نے حق کے بارے میں شک کا اظہار کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے اور حق کے بارے میں شک کرنیوالے کو ہدایت نہیں دیتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اور مومن بری باتوں پہ ناراض ہوتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ متکبر اور مغرور کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ تفسیربالقرآن: اللہ تعالیٰ کن لوگوں کے دلوں پر مہر لگاتا ہے : 1۔ کافروں کے دلوں پر مہر لگادی جاتی ہے۔ (البقرۃ:7) 2۔ مشرکوں کے دلوں پر مہرلگادی جاتی ہے۔ (الانعام :46) 3۔ اللہ کے علاوہ دوسرے کو معبود بنانے والوں کے دلوں پر مہر ثبت کردی جاتی ہے۔ (الجاثیۃ:23) 4۔ افتراء بازی کرنے والوں کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ (الشوریٰ:24) 5۔ مرتد ہونے والے کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے۔ (المنافقون :3) 6۔ تکبر کرنے والے کے دل پر مہر لگائی جاتی ہے۔ (المومن :35) 7۔ جہاد سے پیچھے رہنے والوں کے دلوں پر مہر ثبت کردی جاتی ہے۔ (التوبۃ:93)