وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ
اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے (١) اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، (٢) اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ (٣)
فہم القرآن: ربط کلام : فرعون کی دھمکی کے رد عمل میں ایک مومن کا درد مندانہ خطاب۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی دھمکی دی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں صرف اتنا فرمایا کہ میں تیرے اقدام قتل سے نہیں ڈرتا کیونکہ میری حفاظت میرے رب کے ذمے ہے۔ اس صورت حال میں ایک مومن تڑپ اٹھا۔ جس کے بارے میں قرآن مجید بتلارہا ہے کہ اس نے حالات کے جبر کی وجہ سے اپنا ایمان چھپا رکھا تھا۔ جوں ہی اس نے محسوس کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف فرعون انتہائی اقدام کرنے والاہے تو وہ بےدھڑک ہو کر فرعون کے سامنے پرسوز لہجہ اور پورے جلال کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے باربار اپنی قوم کو سمجھاتا ہے۔ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا۔ اس نے کہا کہ کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب ” اللہ“ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہے بالفرض اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر ہوگا۔ اگر وہ سچا ہے تو پھر تمہیں وہ عذاب ضرور آ لے گا جس سے وہ تمہیں ڈراتا ہے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ جھوٹے اور زیادتی کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا۔ آل فرعون سے تعلق رکھنے والے مومن نے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا تعارف کروایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہیں ” اللہ“ کی طرف بلاتے ہیں اور اس نے دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ وہی تمہارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا رب ہے۔ مرد مومن نے بڑی جرأت سے کام لیتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا انہی الفاظ میں تعارف کروایا۔ جن الفاظ کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے دن فرعون کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تھی۔ (الاعراف :104) تعجب کی بات یہ ہے کہ مرد مومن نے نہ صرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو کھلے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا تعارف کروایا بلکہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل کی تائید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے اور زیادتی کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا۔ گویا کہ اس نے ایک حد تک اپنے الفاظ میں واضح کردیا کہ تم جھوٹے ہو اور موسیٰ (علیہ السلام) سچے ہیں۔ آل فرعون کا مرد مومن اور سیدنا ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) : (عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرٍو عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِکُونَ بِرَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ رَأَیْتُ عُقْبَۃَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ جَاءَ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) وَہُوَ یُصَلِّی، فَوَضَعَ رِدَاءَ ہُ فِی عُنُقِہِ فَخَنَقَہُ بِہِ خَنْقًا شَدِیدًا، فَجَاءَ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی دَفَعَہُ عَنْہُ فَقَالَ أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ یَقُولَ رَبِّیَ اللَّہُ وَقَدْ جَاءَ کُمْ بالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَبِّکُمْ)[ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (ﷺ) لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلاً ] ” عروہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے پوچھا :” مجھے بتاؤ کہ مشرکین مکہ نے نبی اکرم (ﷺ) کو سب سے زیادہ جو تکلیف دی وہ کیا تھی؟ وہ کہنے لگے کہ ” ایک دفعہ رسول اللہ (ﷺ) کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھا۔ آپ کے کندھے پکڑے اور آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر زور سے گلا گھونٹا۔ اتنے میں ابو بکر صدیق (رض) آگئے۔ انہوں نے عقبہ کو کندھے سے پکڑ کر اور آپ سے اسے پیچھے دھکیل دیا اور فرمایا کیا تم اس شخص کو اس لیے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔“