وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ
اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروہ کے گروہ جنت کی طرف روانہ کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آجائیں گے اور دروازے کھول دیئے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو تم اس میں ہمیشہ کیلیے چلے جاؤ۔ (١)
فہم القرآن : (آیت73سے74) ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں جنتیوں کو جنت میں جانے حکم۔ اور انہیں ملائکہ کا سلام پیش کرنا۔ یہاں دو وجہ سے جنتیوں سے پہلے جہنمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ پچھلی آیات میں عدالت کبریٰ کے قیام کے ذکر سے پہلے جہنمیوں کا ذکر ہورہا تھا۔ دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حساب و کتاب کے بعد جنتیوں کو جہنمیوں کی حالت زار دکھانا چاہیں گے۔ تاکہ انہیں احساس ہو کہ اگر ہم پر ہمارے رب کا فضل نہ ہوتا تو آج ہم بھی جہنمیوں میں شامل ہوتے۔ یہ مشاہدہ اور احساس کروانے کے بعد جنتیوں کو حکم ہوگا کہ تم نے تکبر اور نافرمانیوں سے بچ کر زندگی گزاری۔ لہٰذا اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ ! جنتی خراماں خراماں جنت کے دروازوں کے پاس پہنچیں گے تو فرشتے ڈھک، ڈھک جنت کے دروازے کھولتے ہوئے انہیں سلام کہیں گے اور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ تم بہت اچھے رہے اس لیے ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ اس پر جنتی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ تمام تعریفات اس ذات پاک کے لیے ہیں جس نے ہمارے ساتھ اپنے وعدے کو سچ کردکھایا اور ہمیں جنت کی سرزمین کا وارث بنایا اور جنت میں اپنی مرضی کے مطابق رہنے کی اجازت عنایت فرمائی۔ اچھے عمل کرنے والوں کے لیے کتنا ہی اچھا اجر ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَالَّذِیْنَ عَلٰی آثَارِھِمْ کَأَحْسَنِ کَوْکَبٍ دُرِّیٍّ فِی السَّمَآءِ إِضَآءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍلَاتَبَاغُضَ بَیْنَھُمْ وَلَاتَحَاسُدَ لِکُلِّ امْرِیءٍ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْقِھِنَّ مِنْ وَرَآءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھامخلوقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے۔ ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ ہر جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔“ تفسیربالقرآن: متقین کا استقبال : 1۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں توانھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل32) 2۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد :24) 3۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمھارے لیے داخل ہونے کا دن ہے۔ (ق :34) 4۔ جب ملائکہ جنتیوں کے پاس آئیں گے تو انہیں سلام کہیں گے۔ (الزمر :89) 5۔ قیامت کے دن نیک لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے اس میں ان کے لیے دعا سلام ہوگا۔ (ابراہیم :23) 6۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں غم وحزن میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ:30)