أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور تنگ (بھی) ایمان لانے والوں کے لئے اس میں (بڑی بڑی) نشانیاں ہیں۔ (١)
فہم القرآن: ربط کلام : جس مال پر مال دار اتراتے ہیں اس کی حقیقت۔ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ ” اللہ“ ہی رزق بڑھانے اور تنگ کرنے والا ہے۔ بلا شبہ اس میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اس فرمان میں پہلا سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی داتا نہیں۔ وہی ہر چیز کا مالک ہے اور وہ اپنی حکمت کے تحت لوگوں کو رزق عطا کرتا ہے۔ دوسرا سبق اس میں یہ پایا جاتا ہے کہ کسی مالدار کو اپنے مال پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ رزق کی کشادگی اور تنگی کسی کی لیاقت اور محنت پر منحصر نہیں۔ دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو شب و روز محنت کرتے ہیں مگر رزق کی کشادگی دیکھنا ان کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ کچھ ایسے ہیں۔ جو اپنی محنت سے کہیں گنا زیادہ پاتے ہیں۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے زمیندار کی مثال سامنے رکھیں۔ زمین ایک ہی ہے جس کا پانی، موسم اور بیج یکساں ہوتا ہے اور دیگر ذرائع بھی برابر استعمال کیے جاتے ہیں مگر فی ایکڑ کے حساب سے ایک قطعہ کی فصل بہت اچھی ہوتی ہے اور دوسرے کی بہت کم یہی صورت حال منڈی اور بازار میں دیکھی جاتی ہے۔ ایک ساتھ دکانیں اور ایک جیسا مال ہونے کے باوجود ایک کو سر کھجانے کی فرصت نہیں اور دوسرا خالی ہاتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لیے کہ رزق بڑھانا اور کم کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لیے مالدار کو اپنے مال پر اترانے کی بجائے اپنے رب کا شکر گزارہونا چاہیے اور تنگ دست کو اپنی حالت پر صبر کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور دعا کرنی چاہیے۔ (اَللّٰہُمَّ اکْفِنِی بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِی بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ) [ رواہ الترمذی : باب اللھم اکفنی حلالک عن حرامک] ” اے اللہ ! مجھے حرام سے بچا اور اپنے حلال کے ساتھ میری کفالت فرما اور اپنے فضل کے ساتھ مجھے بے نیاز کردے۔“