الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ
جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو (١) اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی اور یہی عقلمند بھی ہیں (٢)
فہم القرآن: (آیت18سے19) ربط کلام : طاغوت سے اجتناب کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی بات کو توجہ سے سنیں اور اس پر عمل کریں یہی عقل سلیم کا تقاضا ہے۔ اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور طاغوت سے اجتناب برتنے والوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اچھی سے اچھی بات کو قبول کرتے ہیں۔ انہی لوگوں کی اللہ تعالیٰ راہنمائی کرتا ہے اور یہی عقل والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت اور عقل مندی کا نتیجہ ہے کہ مختلف قسم کی باتیں سننے کے باوجود ” اللہ“ کے بندے ہمیشہ اچھی بات قبول کرتے ہیں۔ اچھی بات کی قرآن مجید نے ان الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے۔ ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْن﴾[ حٰمٓ السجدہ :33] ” اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور اچھے کام کرے اور کہے میں اللہ کا تابعدار ہوں۔“ خطبہ جمعہ کے الفاظ: جو اچھی بات قبول نہیں کرتے انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ جو ہدایت سے محروم ہوں گے ان پر اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ ثابت ہوگا کہ یہ لوگ جہنم میں گرنے والے ہیں۔ اے رسول (ﷺ) بے شک آپ ہزار کوشش کرلیں آپ انہیں جہنم کی آگ سے نہیں بچا سکتے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَآءَ تْ مَا حَوْلَھَا جَعَلَ الْفِرَاشُ وَھٰذِہِ الدَّوَآبُّ الَّتِی تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا وَجَعَلَ یَحْجُزُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہٗ فَیَتَقَحَّمْنَ فِیْھَا فَاَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَأَ نْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا ھٰذِہٖ رِوَایَۃُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُھَا وَقَالَ فِیْ اٰخِرِھَا قَالَ فَذَالِکَ مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ اَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ہَلُّمَ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا)[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، رواہ مسلم : کتاب الفضائل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا : میری مثال آگ روشن کرنے والے کی طرح ہے۔ جب آگ سے اس کا آس پاس روشن ہوگیا تو پروانے اس میں گرنے لگے۔ آگ جلانے والے نے انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن پروانے اس سے بے قابو ہو کر گرتے رہے۔ بس میں تمہیں آگ سے بچانے کے لیے پیچھے سے پکڑتا ہوں مگر تم اس میں گرتے جا رہے ہو۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں اس طرح ہے کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ میں تمہیں پیچھے سے پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ میری طرف آؤ اور آگ سے بچو، لوگو! آگ کی بجائے میری طرف آؤ۔ لیکن تم مجھ سے بے قابو ہو کر آگ میں گرے جا رہے ہو۔“ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ ) [ رواہ احمد : مسند بسر بن ارطاۃ[ضعیف]] ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اے اللہ ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے بندے احسن بات کو قبول کرتے ہیں۔ 2۔ احسن بات قبول کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ راہنمائی فرماتا ہے۔ 3۔ احسن بات قبول کرنے والے ہی عقلمند ہوتے ہیں۔ 4۔ جو لوگ احسن بات قبول نہیں کرتے وہ آگ سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن: احسن کیا ہے ؟ 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن پیدا کیا ہے۔ ( التین :4) 2۔ اللہ تعالیٰ نے موت اور زندگی اس لیے بنائی ہے کہ انسان احسن عمل کرے۔ (الملک :2) 3۔ توحید کی دعوت دینے اور اس کے تقاضے پورے کرنے والے کی بات سے کسی کی بات احسن نہیں ہو سکتی۔ (حم ٓ السجدۃ:33) 4۔نبی کی حات ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔(الاحزاب:21)