إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
کافروں کو ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی یہ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اس میں پڑے رہیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 116 سے 117) ربط کلام : اہل ایمان کے بعد اہل کفر کا انجام ذکر ہوتا ہے۔ اسلام کے مخالف اپنی انا کی خاطر مسلمانوں کے خلاف مال بھی خرچ کرتے ہیں۔ انہیں اس خرچ کرنے کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ بالآخر اس کا انجام کیا ہوگا۔ صاحب ایمان اور صالح کردار لوگوں کی ہرگز ناقدری نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے کفر کا رویّہ اختیار کیا ان کے مال اور اولادربِّ ذوالجلال کے ہاں انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ کفار اور اہل کتاب رسول معظم (ﷺ) اور صحابہ کرام (رض) کو غریبی کے طعنے دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اگر آپ لوگ سچے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ضرور تمہیں دنیا کے اسباب سے مالا مال کرتا۔ اگر ہم اس کی بارگاہ میں غلط ہوتے تو وہ ہمیں مال اور اولاد سے کیوں نوازتا؟ اس خیال کی تردید اور اہل کفر کے کان کھولنے کے لیے بتلایا جارہا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معیار دنیا کی بجائے آدمی کا عقیدہ اور صالح کردار ہے۔ جو لوگ اس سے تہی دامن ہوئے انہیں جہنم میں جھونکا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ لَایَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمِہَادُ﴾ [ آل عمران : 196، 197] ” آپ کو کفار کا شہروں اور بستیوں میں چلنا پھرنا دھوکے میں نہ ڈالے یہ تھوڑا سا فائدہ ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین ٹھکانہ ہے۔“ اس عقیدہ کے حامل لوگ دنیا میں فلاح و بہبود اور نیکی کے کاموں پر لاکھوں روپے خرچ کریں تو بھی انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ جس طرح لہلہاتے ہوئے باغ‘ کھلے ہوئے پھول اور سرسبز و شاداب کھیتیاں باد صرصر سے خاکستر ہوجایا کرتی ہیں۔ عقیدۂ کفر و شرک کی وجہ سے ان کے اعمال بھی اسی طرح ضائع ہوجائیں گے۔ ان کے صدقات اور عبادات کا غارت ہونا ظلم کی بنا پر نہیں بلکہ ان کے اپنے عقیدے اور کردار کی وجہ سے ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ کفار کے اعمال کے بارے میں حدیث مبارکہ میں یوں آیا ہے : (عَنْ عَائِشَۃ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب الدلیل علی من مات علی الکفر لاینفعہ عمل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی کریم (ﷺ) سے سوال کیا کہ ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اسے یہ چیزیں نفع دیں گی؟ آپ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمادینا۔ (یعنی اس کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں تھا )۔“ مسائل : 1۔ کفار کے مال اور اولاد اللہ کے ہاں کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ 2۔ کفار جہنمی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ 3۔ کفار کا سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن کفار کو کوئی چیز فائدہ نہ دے گی : 1۔ کافر زمین کے برابر سونا دے کر بھی جہنم سے نجات نہیں پاسکتے۔ (آل عمران :91) 2۔ قیامت کے دن ان کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام :51) 3۔ کافر بغیر حساب کے جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ (الکہف :105) 4۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہ آسکے گا۔ (الاعراف :48) 5۔ کفار کے مال واولاد ہرگزان کے کام نہ آسکیں گے۔ (آل عمران :10)