سورة آل عمران - آیت 112

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ان کو ہر جگہ ذلت کی مار پڑی الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں (١) یہ غضب الٰہی کے مستحق ہوگئے اور ان پر فقیری ڈال دی گئی یہ اس لئے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے تھے اور بے وجہ انبیاء کو قتل کرتے تھے یہ بدلہ ہے ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا (٢)۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اہل کتاب خاص کر یہودیوں کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ۔ خندق اور فتح مکہ کے بعد مسلمان اس قابل ہوگئے کہ سرزمین حجاز میں مشرک ان کے سامنے سر نگوں ہوئے‘ یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے جزیرہ نمائے عرب سے نکال دیا گیا۔ نصارٰی کی طاقت تبوک کے میدان میں ہزیمت کا شکار ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد یہود و نصارٰی ذمّی بن کر رہنے اور جزیہ دے کر اسلام کی قوت کے مقابلہ میں رسوا ہوئے۔ یہودیوں کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کردی گئی کہ ان پر ہمیشہ ذّلت اور مسکنت مسلط کردی گئی ہے۔ یہ جہاں کہیں بھی ہوں گے دو صورتوں میں سے ایک کو اختیار کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یا تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر اس امت کا حصہ بن کر معزز ہوجائیں یا پھر دوسروں کے سیاسی گداگر بن کر زندگی بسر کریں۔ ایسی صورت میں ان پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا غضب رہے گا اور مال ومتاع ہونے کے باوجود ان کے دلوں سے حرص و ہوس اور غربت نہیں نکل پائے گی۔ ان کا جرم یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا ہمیشہ انکار اور انبیائے کرام کو ناحق قتل کرنے والے ہیں۔ ان جرائم میں اس لیے ملوث ہوئے کہ یہ لوگ پرلے درجے کے نافرمان اور حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول معظم (ﷺ) کو یہ لوگ قتل نہیں کرسکے اور آپ کے بعد تو سلسلۂ نبوت ختم ہوا پھر ان یہودیوں اور ان کے بعد آنے والوں پر یہ سزا کیوں مقرر کی گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول اکرم (ﷺ) کو یہ لوگ قتل نہیں کرسکے اور نہ ہی اب کسی نبی نے آنا ہے اس کے باوجود ان پر اس سزا کا مسلط ہونا اس لیے ہے کہ یہ اپنے بڑوں کی صفائی ہی پیش نہیں کرتے بلکہ ان کے گھناؤنے جرائم کی تائید کرتے ہیں اور آج بھی مسلمانوں اور مصلحین کو قتل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار اور سیاسی طور پر ذلیل اور معاشی اعتبار سے ارب پتی ہونے کے باوجود یہودی کی نگاہ سیر ہوتی ہے نہ پیٹ بھرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی دنیا کی مالدار ترین قوم ہونے کے باوجود کنجوس اور دل کے بھوکے ہوتے ہیں اور ہمیشہ دنیا میں در بدر پھرتے رہے ہیں۔ 1947 ء میں تین عیسائی حکومتوں برطانیہ‘ فرانس اور امریکہ کی مدد سے یہودیوں نے مختصر سے خطہ پر اپنی ایک الگ حکومت قائم کی جسے کئی ممالک نے تاحال تسلیم ہی نہیں کیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں سے انتقام کے طور پر ان کے ممالک کے درمیان یہ اسرائیلی حکومت قائم کرکے مسلمانوں کے جگر میں خنجر گھونپا ہے اور آج بھی اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اسی کے دم قدم سے یہ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ اگر امریکہ‘ برطانیہ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جائے تو اس کا وجود فوراً ختم ہوجائے۔ اسرائیل غیر قانونی ریاست : اسرائیل فلسطین میں اپنی ریاست کے قیام کی بنیاد جن تین بڑے ماخذوں پر تعمیر کرتا ہے : (1) انجیل میں عہد نامہ قدیم کی میراث۔ (2) 1917 ء میں حکومت برطانیہ کا اعلان بالفور (3) 1947 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سفارش جس میں فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ حالانکہ تاریخی لحاظ سے یہودی فلسطین کے قدیم ترین باشندے نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے وہاں اتنا عرصہ حکومت کی جتنی دوسری اقوام نے کی ہے۔ جدیدماہرین آثار قدیمہ اب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں کے قدیم ترین باشندے یعنی 3000 سال قبل مسیح سے لے کر تقریبًا 1700 قبل مسیح تک کنعانی اور مصری تھے۔ جن کا ذکر قدیم کتب میں ملتا ہے۔ ان کے یکے بعد دیگرے دوسری اقوام مثلًا ہکسو، حطی اور فلسطینی آئے۔ یہودی حکومت کا عہد 875 قبل مسیح سے شروع ہو کر 1020 قبل مسیح تک رہا اس کے بعد اسرائیلیوں کو اسیرین، اہل بابل، مصریوں اور شامیوں نے روند ڈالا۔ پھر 83 قبل مسیح میں سلطنت رومانے یروشلم فتح کرکے یہودی معبدگھروں کو مسمار کرڈالا اور یہودیوں کو دوسرے علاقوں کی طرف بھگادیا۔ مجموعی طور پر فلسطین کی پانچ ہزارسالہ دستاویزی تاریخ میں قدیم یہودیوں نے اسے یا اس کے ایک بڑے حصہ کو محض چھ سو سال تک کنڑول کیا یعنی کنعانیوں، مصریوں، مسلمانوں اور رومیوں سے بہت کم امریکی ” کنگ کرین کمیشن“ کے مطابق اسرائیل کا 1919 ئکے دوہزار سال پیشتر قبضہ کو بنیاد بنا کر دعو ٰی ملکیت کرنا سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا۔ 14 مئی 1947 ء کو تل ابیب میں جو میٹنگ ہوئی جس میں جو ” قدرتی اور تاریخی حق“ کے طور پر اعلان آزادی کیا گیا تھا اس میں صرف یہودیوں کے 37 افراد شریک ہوئے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے اس اقدام کی بین الأقوامی عالمی قانون میں کوئی مستند حیثیت نہیں بنتی کیونکہ وہ اس وقت کی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔ در حقیقت ان میں سے صرف ایک فلسطین کا پیدائشی شہری تھا بقیہ 35 یو رپی ممالک سے تھے اور ایک یمن کا باشندہ تھا۔ بقول ایک فلسطینی دانشور عیسیٰ نخلح کے ” یہودی اقلیت کو ایک ایسے علاقے میں اپنی آزاد ریاست کے قیام کا اعلان کرنے کا کوئی حق نہیں تھا جہاں فلسطینی عرب قوم آباد تھی۔“ امریکہ کی مالی امداد کا سہارا : ہر سال اسرائیل کو دی جانے والی امریکن امداد کسی بھی دوسرے ملک کو دی جانے والی امداد سے زیادہ ہوتی ہے۔ صرف 1987 ء سے لے کر 2003 ء تک براہ راست دی جانے والی معاشی اور فوجی امداد تین ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں جو دوسرے مالی معاملات صرف اور صرف اسرائیل کے لیے خصوصی طور پر طے پاتے ہیں ان کو شامل کرکے یہ امداد تقریبًا پانچ ارب ڈالرسالا نہ تک جاپہنچتی ہے۔ اس میں اسرائیل کو دیے جانے والے قرضہ جات شامل نہیں ہیں۔ امریکی قانون کے مطابق کسی بھی ملک کو امداد چاہے وہ اقتصادی ہو یا فوجی! یکسر ختم کردینی چاہیے اگر وہ ملک جوہری ہتھیار بنالے یا پھر وہ ” عالمی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہورہا ہو“ امریکی حکومت کو سالہا سال سے اسرائیل کے جوہری اسلحہ خانے کے انبار کا اور اس کے حقوق انسانی کی لگاتار پامالی کا علم ہے لیکن کسی بھی صدر یا کانگرس نے قانون کے مطابق امداد کو ختم کرنے کے اقدامات تو کجا اس کو کم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ [ بحوالہ اسرائیل کی دیدہ ودانستہ فریب کاریاں/پال فنڈ ] مسائل : 1۔ یہودی اللہ تعالیٰ کی پناہ اور لوگوں کے سہارے کے بغیر ہر جگہ ذلیل و خوار رہیں گے۔ 2۔ یہودی انبیاء کے قاتل، اللہ کی آیات کے منکر اور حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : یہود ونصارٰی کی ذلّت کے اسباب : 1۔ اللہ تعالیٰ کے گستاخ ہیں۔ (آل عمران :181) 2۔ انبیاء کے گستاخ ہیں۔ (آل عمران :21) 3۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکاری ہیں۔ (البقرۃ:61) 4۔ شرک کی وجہ سے ذلیل ورسوا ہوئے۔ (المائدۃ:18) 5۔ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی وجہ سے رسوا ہوئے۔ (البقرۃ: 83تا85) 6۔ کتاب اللہ میں تحریف کرنے کی وجہ سے خوار ہوئے۔ (النساء :46) 7۔ سود اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کی بنا پر تباہ ہوئے۔ (النساء :161)