وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ
اور ہمارے بندے ایوب (علیہ السلام) کا (بھی) ذکر کر، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے (١)
فہم القرآن: (آیت41سے44) ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا شان و شکوہ بیان کرنے کے بعد حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بے بسی اور تکلیف کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ایوب ہمارا پسندیدہ بندہ تھا۔ اے نبی (ﷺ) ! ان کی بیماری اور کمزوری کا لوگوں کے سامنے تذکرہ کریں کہ انتہا درجہ کی بیماری اور کمزوری کے باوجود اس نے اپنے رب کو یاد رکھا اور اس کی رضا پر راضی رہا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایوب (علیہ السلام) اس قدر بیمار ہوئے کہ چلنے پھرنے سے بھی عاجز آگئے۔ مفسرین نے لکھا کہ اس دوران ان کا مال بھی تباہ ہوا اور ایک بیوی کے سوا باقی بیویاں ان سے الگ ہوگئیں۔ شدید بیماری اور شدید ترین آزمائشوں کے باوجود ایوب (علیہ السلام) کی زبان پر کوئی حرف شکایت نہ آیا جب بھی ہونٹ ہلے تو اپنے رب کے حضور فریاد کی کہ میرے رب! مجھے شیطان نے سخت تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ صبر اور ادب کا انذازہ کیجیے کہ بیماری کی نسبت اپنے رب کی طرف کرنے کی بجائے شیطان کی طرف کی ہے کیونکہ ہر تکلیف اور نقصان کا بنیادی سبب شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہوتا ہے اگر کسی بد پرہیزی کی وجہ سے انسان بیمار ہو تو اس بدپرہیزی کے پیچھے بھی شیطان ہی ہوتا ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی دعا مستجاب ہوئی اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم فرمایا کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو جونہی انہوں نے اپنا پاؤں زمین پر مارا تو اللہ تعالیٰ نے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ جاری کیا اور حکم فرمایا کہ اے ایوب (علیہ السلام) اس میں غسل کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا کاملہ عطا فرمائی۔ ایک طرف حضرت ایوب (علیہ السلام) صحت یاب ہوئے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انہیں نیک اہل و عیال عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اور بہت کچھ دیا۔ کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ سخت بیماری کی وجہ سے جو بیویاں چھوڑ گئی تھیں وہ بھی بچوں سمیت واپس آگئیں جن سے اللہ تعالیٰ نے مزید اولاد عنایت فرمائی اور تباہ ہونیوالے مال کے بدلے بہت سا مال بھی عطا فرمایا۔ اس میں بہت سی نصیحتیں ہیں ان لوگوں کے لیے جو صاحب عقل ہیں۔ اسرئیلی روایات کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ بیماری کے دوران حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی کے پاس انسان کی شکل میں شیطان آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ کے خاوند کا اس شرط پر علاج کرتاہوں کہ اگر وہ صحت یاب ہوجائے۔ تو پھر تو نے یہ الفاظ کہنا ہوں گے یہی میرے علاج کا معاوضہ ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی نے آپ ( علیہ السلام) کی خاطر وہ الفاظ کہنے کا وعدہ کرلیا بعد ازاں اس کا ذکر حضرت ایوب (علیہ السلام) سے کیا تو وہ اس بات پر سخت نالاں ہوئے اور فرمایا کہ یہ انسان نہیں بلکہ شیطان تھا جس نے تجھ سے ایسے الفاظ کہلوانے کا وعدہ لیا ہے۔ جن میں شرک پایا جاتا ہے جن مفسرین نے اس روایت کو تسلیم نہیں کیا ان کا خیال ہے کہ حضرت ایوب کسی اور بات سے اپنی بیوی پرخفا ہوئے تھے۔ اس پر ایوب (علیہ السلام) نے قسم اٹھائی کہ جب میں صحت مند ہوں گا تو تجھے سو کوڑے ماروں گا جب ایوب (علیہ السلام) چشمہ سے غسل کرنے کے بعد صحت یاب ہوگئے تو انہوں نے اپنی قسم پوری کرنے کا عزم کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ قسم توڑنے کی بجائے اسے اس طرح پورا کرو کہ سو تنکے کا جھاڑو لے کر اپنی بیوی کو ایک ضرب لگاؤ جس سے ہمارے ہاں تمہاری قسم پوری ہوجائے گی۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے ارشادفرمایا ہے کہ ہم نے اسے بڑے حوصلے والا پایا وہ بہت ہی اچھا انسان اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرنے والا تھا۔ اس واقعہ میں ایک طرف نبی (ﷺ) کو شکر ادا کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے اور دوسری طرف آپ کو سمجھایا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو مثالی صحت سے ہمکنار فرمایا ہے لہٰذا خدمت دین کا کام کرتے رہیں اور مشکلات پر صبر کرتے جائیں۔ امت مسلمہ کو یہ سبق دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر نعمت دینے والا ہے اور وہی اس سے محروم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ کا بندہ وہ ہے جو مشکل کے وقت صبر سے کام لے اور آسانی کے وقت اس کا شکر ادا کرے۔ گویا کہ ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والاہی اس کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ بَیْنَمَا أَیُّوبُ یَغْتَسِلُ عُرْیَانًا خَرَّ عَلَیْہِ رِجْلُ جَرَادٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَجَعَلَ یَحْثِی فِی ثَوْبِہِ، فَنَادَی رَبُّہُ یَا أَیُّوبُ، أَلَمْ أَکُنْ أَغْنَیْتُکَ عَمَّا تَرَی قَالَ بَلَی یَا رَبِّ، وَلَکِنْ لاَ غِنَی لِی عَنْ بَرَکَتِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الانبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا حضرت ایوب غسل فرما رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سونے کی ٹڈیاں آسمان سے برسائیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) انہیں پکڑ پکڑ کر کپڑے میں ڈالنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) سے استفسار فرمایا کہ ایوب! کیا ہم نے سب کچھ دے کر تجھے غنی نہیں کردیا؟ ایوب (علیہ السلام) کہنے لگے کیوں نہیں لیکن میں آپ کی رحمت سے لا پروا نہیں ہوسکتا۔“ قسم کے بارے میں آپ (ﷺ) کا فرمان : ” حضرت زھدم (رح) بیان کرتے ہیں کہ ہم ابو موسیٰ اشعری (رض) کے پاس تھے وہ فرماتے ہیں میں نبی کریم (ﷺ) کے پاس اشعری قبیلہ کے کچھ افراد کے ہمراہ اس وقت حاضر ہوا جب آپ غصہ میں تھے۔ ہم نے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے قسم اٹھائی کہ میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ پھر آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! اگر اللہ کی مشیّت شامل حال ہو تو جس کام پر میں قسم کھاتا ہوں اگر میں اس کے بجائے دوسرے کام کو بہتر سمجھوں تو میں افضل کام کرنا پسند کرتا ہوں اور قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔“ [ رواہ البخاری : باب الیمین فیما لایملک الخ] (عَنْ عُقْبَۃَ ابْنِ عَامِرٍ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ کَفَّارَۃُ النَّذْرِ کَفَّارَۃُ الْیَمِیْنِ )[ رواہ مسلم : باب فِی کَفَّارَۃِ النَّذْرِ] حضرت عقبہ بن عامر (رض) رسول کریم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا نذر کا کفارہ وہی ہے‘ جو قسم کا کفارہ ہے۔“ مسائل: 1۔ ایوب (علیہ السلام) نے بیماری کو شیطان کی طرف منسوب فرمایا۔ 2۔ ایوب (علیہ السلام) نے صرف اپنے رب سے شفا طلب کی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو دوبارہ اہل وعیال عطا کیے اور بہت سی نعمتوں سے نوازا۔ 4۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) اپنے رب کے بہترین بندے اور ہر حال میں اس کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ تفسیربالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی مشکلات دور کرنے والاہے : 1۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام :41) 2۔ اللہ کے سوا کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ (الاسراء :56) 3۔ اگر آپ کو کوئی تکلیف ہوجائے تو سوائے اللہ کے اسے کوئی نہیں دور کرسکتا۔ (یونس :107) 4۔ کون ہے جو اللہ کے سوا مجبور کی دعا سننے والا اور مصیبت دور کرنے والا ہے؟ (النمل :62) 5۔ کہہ دیجیے اگر اللہ تعالیٰ نقصان پہچانے پر آئے کیا تو اس نقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ (الفتح :11) 6۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد :16)