اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کریں جو بڑی قوت والا تھا (١) یقیناً وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔
فہم القرآن: (آیت17سے20) ربط کلام : حالات سے دل گرفتہ ہونے کی بجائے آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کرنے اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ ذہن میں رکھنے اور ان کی طرح حوصلہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کفار مکہ نے عجب صورت حال اختیار کر رکھی تھی۔ ایک مجلس میں کہتے کہ آپ (ﷺ) جادوگر ہیں۔ دوسری مجلس میں پروپیگنڈہ کرتے کہ آپ (ﷺ) پر جادو ہوچکا ہے۔ آپ توحید کی دعوت دیتے تو کہتے کہ یہ شخص کذّاب ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جس شخص کا جادو اور جادوگروں سے کبھی واسطہ نہ پڑا ہو۔ جس نے زندگی بھر جھوٹ بولنا تو دور کی بات کبھی مغالطہ دینے والی بات نہ کی ہو۔ اس کے خلاف گھر گھر اور ہر مقام پرالزامات لگائے جارہے ہوں بحیثیت انسان اس کی کیا حالت ہوگی۔ اس صورت حال میں یہ فرمان نازل ہوا کہ اے محبوب (ﷺ) ! آپ اور آپ کے ساتھی صبر کا دامن نہ چھوڑیں اور داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ یاد کریں جو ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ اس کی قوت کا عالم یہ تھا کہ ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کردیا تھا ان کی زبان اس قدر پُر تاثیر تھی کہ جب وہ صبح شام زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ جھوم پڑتے ان کی تلاوت کے دوران اڑتے ہوئے پرندے رک کر ان کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی حکومت اور مملکت کو ہر اعتبار سے مضبوط کر رکھا تھا۔ بے مثال اقتدار اور اختیار کے ساتھ انہیں دانائی اور قوت فیصلہ کی صلاحیت سے بھی سرفراز کیا گیا۔ اس کے سامنے دم مارنے اور اس کے فیصلے کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ آپس میں جھگڑنے والے دو شخص بلا اجازت اور اچانک ان کی عبادت گاہ میں دیوار پھلانگ کر گھس گئے۔ ان کے دیوار پھلانگنے اور اچانک اندرگھس آنے پر داؤد (علیہ السلام) گھبرائے اور خوف زدہ ہوگئے۔ گھس آنے والوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ہم سے خوف زدہ نہ ہوں۔ ہم تو آپ کی خدمت میں اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ صادر فرما دیں اور ہم میں سے کسی کیساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) جلیل القدر پیغمبر اور بہت بڑے حکمران تھے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونے والوں نے زیادتی کی حد کردی تھی لیکن اس کے باوجود حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ان سے درگزر کرتے ہوئے ٹھنڈے دل سے ان کی بات سنی اور ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ فرمایا اور اپنے جذبات پر قابو رکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا یہ میرا بھائی ہے جو مجھ پر زیادتی کرنے پرتلا ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے یہ مجھ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اپنی دنبی بھی میرے حوالے کردے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس کی بات سنکر فرمایا کہ اس کا تجھ سے دنبی کا مطالبہ کرنا سرا سر ظلم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان دار اور صالح کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ یہ بات کرتے ہی داؤد (علیہ السلام) کو احساس ہوگیا کہ میرے رب نے مجھے اس مقدمہ میں آزمایا ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی داؤد (علیہ السلام) اپنے رب سے معافی کے خواستگار ہوئے اور نہایت ہی عاجزانہ انداز میں اپنے رب کے حضور گڑ گڑ انے لگے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اسے معاف کردیا۔ بلا شبہ وہ ہمارے ہاں بڑی شان اور بڑے مقام والا تھا۔ اس مقام پر داستان گوئی سے دلچسپی رکھنے والے مفسرین نے اسرائیلی روایات سے کچھ بے ہودہ قسم کی باتیں درج کی ہیں۔ حالانکہ پیغمبر کے بارے میں ایسی باتیں سوچنا اور لکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اسی لیے مشہور مفسرامام ابن کثیر نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خطا ذکر کیے بغیر انہیں معاف فرما دیا تو ہمیں بھی اس خطا کی کھوج میں نہیں پڑنا چاہیے۔ (عَنْ نَافِعٍ (رض) قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَنْ دُعِیَ فَلَمْ یُجِبْ فَقَدْ عَصَی اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَمَنْ دَخَلَ عَلَی غَیْرِ دَعْوَۃٍ دَخَلَ سَارِقًا وَخَرَجَ مُغِیرًا۔( [ رواہ ابوداوٗد : باب مَا جَاءَ فِی إِجَابَۃِ الدَّعْوَۃِ[ضعیف]] ” نافع (رض) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس شخص نے کسی کی دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور جو بغیر اجازت کے دوسرے کے گھر میں داخل ہو اوہ چور بن کرداخل ہوا اور غاصب بن کر نکلا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ (ﷺ) لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْکَ بِغَیْرِ إِذْنٍ، فَخَذَفْتَہُ بِعَصَاۃٍ، فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ جُنَاحٌ )[ رواہ البخاری : باب مَنْ أَخَذَ حَقَّہُ أَوِ اقْتَصَّ دُون السُّلْطَانِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم (ﷺ) نے فرمایا اگر کوئی بندہ اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا لاٹھی کے ساتھ اس کی آنکھ پھوڑ دے اس پر کوئی گناہ نہیں۔“ مسائل: 1۔ ایک داعی اور مبلغ کو لوگوں کی ہرزہ سرائی پر صبر کرنا چاہیے۔ 2۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) قوت والے ہونے کے باوجود ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتے تھے۔ 3۔ حضرت داؤد کے ساتھ صبح، شام پہاڑ بھی اپنے رب کی حمد کرتے تھے۔ 4۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے سامنے پرندے بھی حاضر ہوتے تھے۔ 5۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی حکومت بڑی مستحکم تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دانائی عطا فرمائی تھی۔ 6۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) بہت ہی اچھا خطاب فرمانے والے اور صحیح فیصلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: صبر کی فضیلت اور صابر کا مقام ومرتبہ : 1۔ اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔ (البقرۃ:152) 2۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو۔ (البقرۃ:153) 3۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ (الزمر :10) 4۔ بے شک جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کا اظہار کرتے ہوئے صبر و استقامت کا ثبوت دیا انھیں کوئی خوف اور حز ن وملال نہیں۔ (الاحقاف :13) 5۔ اللہ تعالیٰ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل :96) 6۔ جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (ہود :11) 7۔ صبر کرنے والوں کا انجام بہترین ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 8۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153)