سورة الصافات - آیت 6

إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن:(آیت6سے10) ربط کلام : جس رب نے آسمانوں کو بنایا ہے اسی نے پہلے آسمان کو ستاروں سے روشن فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ قرآن مجید نے یہ بات کئی مقامات پر بیان فرمائی ہے کہ آسمان دنیا یعنی پہلا آسمان جو لوگوں کو نظر آتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے ستاروں سے مزّین فرمایا ہے۔ ستاروں کے دو فائدے اور بھی ذکر فرمائے ہیں۔ ان سے لوگ راستوں کی راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور انہی ستاروں سے آسمان دنیا کی حفاظت کا بندو بست کیا گیا ہے۔ کیونکہ شیاطین آسمان دنیا کے دروازوں کے قریب جا کر ملائکہ کی گفتگو سننا چاہتے ہیں تو ستارے شیاطین پر انگارے بن کر بر ستے ہیں اس طرح شیاطین پر مستقل طور پر عذاب مسلّط کردیا گیا ہے۔ اس بندوبست سے پہلے شیاطین آسمان کے قریب جا کر ملائکہ کی کچھ نہ کچھ باتیں سن کر کاہنوں، نجومیوں اور اس قسم کے لوگوں کے دلوں میں جھوٹ، سچ ملا کر کوئی نہ کوئی بات القا کرتے تھے۔ جسے آٹھویں پارے میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس جھوٹ کی طرف مائل ہوں اور وہ اسے پسند کریں اور تاکہ وہ برائیاں کریں جو یہ کررہے ہیں۔“ (الانعام :113) اسی بات کو اہل مکہ نبی (ﷺ) پر چسپاں کرتے اور کہتے تھے کہ محمد (ﷺ) کے پاس فرشتہ نہیں بلکہ جنات آتے ہیں جو پہلے لوگوں کے واقعات سنانے کے ساتھ اسے مزید باتیں بتاتے ہیں۔ اس الزام کی یہاں خاص انداز میں تردید کی گئی ہے۔ انیسویں پارے میں کھلے الفاظ میں وضاحت فرمائی۔ ” کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے اور بد کردار پر اترتے ہیں اور سنی سنائی باتیں پہنچاتے ہیں۔“ (الشعراء : 221تا223) ستاروں کے بارے میں کیا عقیدہ ہونا چاہیے : ” حضرت خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے حدیبیہ مقام پر ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو ہونے والی بارش کے اثرات فضا میں نمایاں تھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ (ﷺ) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور صحابہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔ انہوں نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کچھ بندوں نے ایمان کی حالت میں صبح کی اور کچھ نے کفر کی حالت میں۔ جس نے کہا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان لایا اور اس نے ستاروں کا انکار کیا اور جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی اس نے میرا انکار کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔“ [ رواہ البخاری : باب یَسْتَقْبِلُ الإِمَام النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ] تفسیر بالقرآن: ستاروں کابیان اور ان کے فوائد : 1۔ وہ ذات جس نے ستاروں کو اندھیروں میں تمہاری رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ (الانعام :97) 2۔ لوگ ستاروں کی علامات سے راہ پاتے ہیں۔ (النحل :16) 3۔ چاند، سورج اور ستارے اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ (الاعراف :54) 4۔ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے انھیں خوبصورت بنایا۔ (الحجر :16) 5۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔ (الفرقان :61) 6۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے خوبصورت بنایا ہے۔ (الصّٰفٰت :6) 7۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور شیطانوں سے محفوظ فرمایا۔ (حٰم السجدۃ:12) 8۔ کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیسے بنایا اور سجایا ہے۔ (ق :6) 9۔ جِنّات نے کہا کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے مضبوط چوکیداروں اور انگاروں سے بھرا ہو اپایا۔ (الجن :8)