وَالصَّافَّاتِ صَفًّا
قسم ہے صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔
فہم القرآن:(آیت1سے5) سورہ یٰس کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر کہ وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرے کیونکہ ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے۔ اس کے کن کہنے سے ہر چیز عین اس کی منشا کے مطابق معرض وجود میں آجاتی ہے۔ سورۃ صافات کی ابتدا میں اپنی قدرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ” اللہ“ وہ ذات ہے کہ جس کے سامنے ملائکہ قطار اندر قطار اور دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ وہی حقیقی الٰہ ہے اسی نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور ان کی حفاظت کا بندوبست فرمایا۔ وہی قیامت کے دن انسان کو پیدا فرمائے گا۔ ” اَلصّٰفّٰتِ“ کا معنی ہے صفیں باندھنے والے۔” اَلزّٰجِرَاتَ“، ڈانٹنے والے۔ اور ” اَلتّٰلِیٰتَ“ تلاوت کرنے والے۔ رب ذوالجلال نے یہاں تین قسمیں اٹھائی ہیں جن کے بارے میں مفسرین کی غالب اکثریت کا خیال ہے کہ صفیں باندھنے والے، ڈانٹ ڈپٹ کرنے والے اور اللہ کے ارشادات کو یاد رکھنے والوں سے مراد مخصوص ملائکہ ہیں جو اپنے رب کے حضور ہر وقت صف بندی کی صو رت میں دست بستہ کھڑے رہتے ہیں کہ کب رب ذوالجلال کا حکم صادر ہو اور ہم اس کی تعمیل میں کمر بستہ ہوجائیں۔ یہ ملائکہ تعمیل حکم میں اپنے رب کے احکام کو من وعن یاد رکھتے ہیں اور اس پیغام کی شیاطین سے حفاظت بھی کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ملائکہ کی تین اقسام مراد لی ہیں۔ 1۔ اللہ کے حضور ہر وقت صف بستہ رہنے والے 2 ۔اللہ تعالیٰ کے احکام عرش معلی سے نیچے پہنچانے والے 3 ۔آسمان دنیا تک پہنچنے والے شیاطین کا تعاقب کرنے والے تدبرِقرآن کے مفسر نے ملائکہ کی تین حالتیں مراد لیتے ہوئے لکھا ہے کہ بندے کی نماز میں یہی تین حالتیں ہوتی ہیں نماز میں پہلے صف بندی ہوتی ہے پھر اللہ تعالیٰ سے شیطان سے بچنے کے لیے حفاظت طلب کی جاتی ہے اور اس کے بعد اس کی حمد و ستائش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قسمیں اٹھانا : آدمی کے لیے حکم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی قسم نہیں اٹھا سکتا۔ انسان دوسرے کے سامنے دو وجوہات کی بنا پر قسم اٹھاتا ہے۔ اپنی بات میں پختگی پیدا کرنے اور سننے والے کے اعتماد میں اضافہ کرنے کے لیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے وہ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم اٹھائے اس کی ذات پر کسی قسم کی پابندی نہیں اور نہ ہی اسے اپنے بارے میں کسی کا اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کی ذات حق اور اس کی ہر بات سچ ہے۔ البتہ انسانی ذہن کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کسی چیز کی قسم اس لیے اٹھاتا ہے تاکہ انسان کے ذہن میں اس چیز یا اس کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا جائے اور اس کے بعد ہونے والی بات پر انسان پوری توجہ مبذول کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی قسمیں اس لیے کھائی ہیں کہ ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں اور ہونگے جو ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں تصور کرتے ہوئے اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ گویا کہ ملائکہ کو اللہ کی ذات کا حصہ اور اس کی خدائی میں شریک سمجھتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی کچھ ڈیوٹیاں لگارکھی ہیں لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ وہ رب کی خدائی میں شریک ہوگئے ہیں ایسا ہرگز نہیں۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو پیدا کرنے والا ایک ہی رب ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے سوا کوئی رکوع وسجود کے لائق نہیں۔ وہی عطا کرنے والا اور بگڑی بنانے والا ہے اور نظامِ کائنات میں اسی کا حکم چلتا ہے۔ یہاں ” مَشَارِقْ“ کا لفظ لا کر یہ واضح فرمایا ہے کہ بے شک سورج مشرق کی جانب سے طلوع ہوتا ہے لیکن معلوم ہونا چاہیے سورج ہمیشہ مشرق کے ایک ہی مقام سے طلوح نہیں ہوتا بلکہ ہر روز اپنی جگہ بدلتا ہے۔ جسے موجودہ سائنسدان اور فلکیات کے ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے ” مَشَارِقْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عربی میں ” مَشَارِقْ“ کا لفظ فاصلے کی طوالت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ سبحان اللہ قرآن مجید میں کیسی بلاغت پائی جاتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَئِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ جب آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے ڈر کی وجہ سے فرشتوں کے پروں میں آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھینچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ پوچھتے ہیں‘ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ اوپر والے ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو بیان کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہے اللہ کا ارشاد ہے جو بلند وبالا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھَبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَوَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَآ اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِئتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہٗ ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا﴾ قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْشِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے اس کو اجازت نہ ملے بلکہ اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“ مسائل: 1۔ ملائکہ اپنے رب کے حضور صف بندی کی حالت میں دست بستہ حاضر رہتے ہیں۔ 2۔ ملائکہ اپنے رب کے احکام کو یاد رکھنے اور انہیں آسمان دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ 3۔ ملائکہ اپنے رب کے حکم کی حفاظت کرتے ہوئے شیطان کا تعاقب کرتے ہیں۔ 4۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کچھ ایک رب کا پیدا کردہ اور اس کی ملکیت ہے۔ 5۔ زمین آسمان اور ہر چیز کا رب ہی الٰہ حقیقی ہے بس اسی کی ہی عبادت کرنا اور اسی سے ہی مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں : 1۔ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں۔ (النساء :87) 2۔ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہے۔ (النساء :171) 3۔ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ (فاطر :3) 4۔ اللہ رحمٰن اور رحیم ہے۔ (الفاتحۃ:3) 5۔ اللہ ہی رزّاق ہے۔ (الذّاریات :58) 6۔ اللہ ہی مشکل کشا ہے۔ (الانعام :17)