أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔
فہم القرآن: ربط کلام : اہل مکہ نبی اکرم (ﷺ) سے ہی نہیں جھگڑتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی جھگڑا کرتے تھے۔ نبی کریم (ﷺ) کو تسلی دینے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ کیا انسان اپنی تخلیق پر غور نہیں کرتا کہ ہم نے اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے اور پھر انسان اپنے رب سے ہی جھگڑا کرنے پر اترآتا ہے۔ اس میں بھی نبی (ﷺ) کو مخصوص انداز میں تسلی دی گئی ہے کہ غور فرمائیں کہ یہ لوگ صرف آپ سے ہی جھگڑا نہیں کرتے بلکہ اپنے خالق کے ساتھ بھی جھگڑا کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے انسان کو کئی بار اس کی تخلیق کے بارے میں توجہ دلائی ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ کیا اس کی تخلیق میں کسی اور کا عمل دخل ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین انسان کی تخلیق کا ذریعہ بنائے گئے ہیں لیکن کتنے جوڑے ہیں جو صحت مند ہونے اور زندگی بھر ازدواجی عمل کرنے کے باوجود اولاد سے محروم رہتے ہیں۔ یہی حقیقت انسان کی سمجھ میں آجائے تو وہ غیروں کی بجائے رب کا بندہ بن سکتا ہے۔ مگر مشرک کی حالت یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو خالق ماننے کی بجائے یہ عقیدہ رکھتا اور کہتا ہے کہ فلاں بزرگ اولاد دینے یا دلوانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اگر اسے سمجھایا جائے تو وہ اپنے شرکیہ عقیدہ کے بارے میں بحث وتکرار کرتا ہے اور جن کو وہ خدا کی خدائی میں شریک سمجھتا ہے ان کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے۔ ایسا ہی طرز عمل ان لوگوں کا ہے جو آخرت کو جی اٹھنے کا یقین نہیں رکھتے۔ مکہ کے لوگوں کی غالب اکثریت کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد انسان مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے اور اس کے بعد اس نے زندہ نہیں ہونا اور نہ ہی اسے کوئی زندہ کرسکتا ہے۔ کیونکہ انسان مٹی سے بنا تھا اور وہ مرنے کے بعد مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا ایک شخص رسول محترم (ﷺ) کے پاس حاضر ہوا اور ایک گلی سڑی ہڈی کو اپنے ہاتھ سے مسلتے ہوئے کہا کہ اے محمد! اس مٹی کو کس طرح انسان کی شکل میں زندہ کیا جائے گا اس کے تکرار کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان ہمارے سامنے بوسیدہ ہڈی کی مثال پیش کرتا ہے۔ کہ اسے کون زندہ کرے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنی پیدائش بھول گیا ہے اگر اسے اپنی پیدائش یاد ہوتی تو یہ ہمارے سامنے یہ مثال ہرگز پیش نہ کرتا۔ (قَالَ قَتَادَۃُ (رض) جَاءَ أُبَیٌّ بْنُ خَلْفٍ إِلٰی رَسُو لِ اللّٰہِ (ﷺ) وَفِیْ یَدِہٖ عَظْمٌ رَمِیْمٌ وَہُوَ یُفَتِّتُہٗ وَیُذْرِیْہِ فِیْ الْہَوَاءِ وَہُوَ یَقُوْل یَا مُحَمَّدُ، أتَزْعَمُ اأنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ ہٰذَا؟ فَقَالَ نَعَمْ، یُمِیْتُکَ اللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ یَبْعَثُکَ، ثُمَّ یَحْشُرُکَ إِلٰی النَّاِروَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَاتُ مِنْ آخِرِ یٰس ﴿أَوَلَمْ یَرَ الإنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُطْفَۃٍ ﴾، إِلٰی آخِرِہُنَّ)[ تفسیر ابن کثیر، سورۃ یٰسٓ ] ” حضرت قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابی بن خلف نبی اکرم (ﷺ) کے پاس ایک بوسیدہ ہڈی لے کر آیا۔ ہڈی کو مسلا اور ہوا میں اڑا کر کہنے لگا۔ اے محمد (ﷺ) ! آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کرلے گا۔ آپ نے جواب دیاہاں ایسا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تجھے فوت کرے گا پھر زندہ کرے گا پھر وہ تجھے جہنّم کی طرف لے جائے گا۔ اس پر سورۃ یٰس کی آخری آیات نازل ہوئیں۔“ مسائل: 1۔ مشرک اپنی تخلیق کو بھول کر اپنے رب کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ 2۔ آخرت کا منکر بوسیدہ ہڈی کے ذریعے سمجھتا ہے کہ اسے کوئی زندہ کرنے والا نہیں۔ 3۔ آخرت کا انکار کرنے والا حقیقت میں اپنی تخلیق کو بھول جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ مردوں کو ضرور زندہ کرے گا : 1۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (بنی اسرائیل :51) 2۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ:55) 3۔ اللہ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس :4) 4۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم :11) 5۔ کیا اللہ تعالیٰ کو اس بات پر قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو زندہ فرمائے۔ (القیامۃ:40) 6۔ اس بات پر تعجب ہے یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ (الرعد: 5) 7۔مردوں کو اللہ تعالی اٹھائے گاپھر اسی کی طرف ہی لوٹائیں جائیں گے۔ (الانعام: 36)