أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ
کیا وہ نہیں دیکھتے ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی (١) ہوئی چیزوں میں سے ان کے لئے چوپائے (٢) بھی پیدا کئے جن کے کہ یہ مالک ہوگئے ہیں (٣)
فہم القرآن: (آیت71سے73) ربط کلام : سورۃ یٰس کا مرکزی مضمون بعث بعد الموت ہے۔ سابقہ آیات میں اسی کے دلائل دیئے گئے ہیں۔ درمیان میں قرآن مجید کے بارے میں کفار کے ایک الزام کی تردید کی گئی ہے۔ اب پھر موت کے بعد جی اٹھنے کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ قرآن مجید تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ تقریر اور خطاب کے انداز میں نازل ہوا ہے۔ خطاب کے دوران اگر سامع کوئی اعتراض یا سوال اٹھائے یا خطاب کرنے والا خود محسوس کرے تو وہ اپنے مضمون سے زرا ہٹ کر اس اعتراض کا جواب دینا لازم سمجھتا ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو پورے کا پورا خطاب بے اثر ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے اسی اصول کے پیش نظر قرآن مجید ایک مضمون بیان کرتے ہوئے اس کے متعلقات کا جواب دینا بھی ضروری سمجھتا ہے۔ کیونکہ اہل مکہ توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کی تردید کے لیے ضروری سمجھتے تھے کہ سرے سے قرآن مجید کو ہی مشکوک قرار دے دیا جائے اس لیے اس موقعہ پر قرآن مجید کے بارے میں وضاحت کردی گئی کہ یہ شاعرانہ کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ قرآن کی صورت میں نصیحت ہے مگر اس سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کا ضمیر زندہ ہوگا۔ مردہ ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے یہ دلیل دی جارہی ہے کیا انہوں نے کبھی غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے چوپائے پیدا کیے اور پھر لوگوں کو ان کا مالک بنا دیا۔ انسان سے کئی گنا زیادہ، جسیم اور طاقتور چوپائے اس کے تابع فرمان کردیے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن پر یہ سواری کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کا انسان دودھ پیتے اور گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار فوائد ہیں مگر لوگ اپنے رب کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اونٹ کو دیکھیں کس قدر طویل القامت، جسیم اور طاقتور جانور ہے لیکن اس کی مہار پکڑے ہوئے ایک بچہ بھی اس کو ادھر ادھر لیے پھر تا ہے۔ گھوڑے پر غور کریں کہ اس قدر سر پٹ دھوڑتا ہے کہ آدمی اسے پکڑنا چاہے تو پکڑ نہیں سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح انسان کا تابع دار بنا دیا ہے کہ یہ جب چاہے گھوڑے پر سورا ہوجائے اور جب چاہے اس سے باربرداری کا کام لینا شروع کر دے۔ جانوروں کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ لغت کے اعتبار سے ید کی جمع ” اَیْدِیْ“ ہے جس کا معنٰی ہاتھ ہے۔ اس کا معنٰی نعمت بھی کیا گیا ہے۔ یہاں اہل علم نے ” اَیْدِیْ“ کا معنٰی قدرت کیا ہے۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کیا لوگوں نے غور نہیں کیا ؟ کہ ہم نے اپنی قدرت سے چوپائے پیدا کیے اور لوگوں کو ان کا مالک بنایا ہے۔ چوپاؤں کو ہم نے لوگوں کے تابع کردیا کچھ پر یہ سوار ہوتے اور کچھ کا گوشت کھاتے ہیں۔ چوپاؤں میں اور فائدوں کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے آبپاشی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ یہ نعمتیں پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا عمل دخل نہیں لیکن پھر بھی لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ قرآن مجید میں چوپاؤں، آسمانوں اور انسان کے بارے میں ” یَدٌ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کے بارے میں ” یَدٌ“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور باقی کے بارے میں ” اَیْدِیْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ” یَدٌ“ کا ہاتھ کے علاوہ کوئی معنٰی نہیں کیا جاسکتا اس کی تاویل کر ناجائز نہیں۔ لیکن ” اَیْدِیْ“ کے بارے میں صحابہ کرام (رض) سے منقول ہے کہ وہ اس کا معنٰی ہاتھ کی بجائے قدرت کرتے تھے اور اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ کی تخلیق پر انسان کو غور کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار فوائد رکھے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: شکر کا حکم اور فائدے : 1۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمھیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ:152) 2۔ لوگو! تم اللہ کا شکر ادا کرو اور ایمان لاؤ۔ اللہ بہت ہی قدر دان ہے۔ (النساء :147) 3۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو وہ مزید عطا فرمائے گا۔ (ابراہیم، آیت :7) 4۔ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ:172) 5۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت :17)