وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ
تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب (١) اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے۔
فہم القرآن: (آیت51سے54) ربط کلام : قیامت کے دن لوگ اپنی قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف دوڑیں گے۔ دوسرے نفخہ کے بعد لوگ قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائیں گے جیسے شکاری شکار کی طرف دوڑتا ہے۔ اللہ کے باغی قبروں سے نکلتے ہی واویلا کریں گے۔ ہائے افسوس ! ہمیں کس نے قبروں سے نکال باہر کیا ہے۔ قیامت کی ہولناکیوں اور محشر کے میدان میں اکٹھے کیے جانے کا حال دیکھ کر انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہی قیامت کا دن ہے جس کا ہمارے ساتھ ربِّ رحمن نے وعدہ کیا تھا اور جس کی پیغمبریاد دہانی کروایا کرتے تھے۔ جس قیامت کے بارے میں یہ لوگ جھگڑتے اور کہتے ہیں کہ یہ کبھی نہیں آئے گی وہ تو اسرافیل کی ایک پھونک کا نتیجہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جوں ہی اسرافیل صور میں پھونک ماریں گے تو زمین میں شدید ترین زلزلے ہوں گے یہاں تک کہ پھٹ جائے گی۔ ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا اور سب کے سب ربِّ ذوالجلال کے حضور کھڑے ہوجائیں گے۔ لوگ پسینے سے شرابور ہوں گے اور اس طرح حواس باختہ ہوں گے جیسے انہوں نے نشہ کیا ہوا ہو۔ یہ حالت ان کی نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ محشر کی سختی اور ربِّ ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے ہوگی۔ اس موقع پر اعلان ہوگا کہ آج کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم نہیں ہوپائے گا۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَائِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کَیْفَ الْحَشْر] حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں‘ ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھیں گے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا یعنی کوئی ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھ سکے۔“ (عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ إِنَّ الصَّادِقَ الْمَصْدُوق (ﷺ) حَدَّثَنِی أَنَّ النَّاسَ یُحْشَرُونَ ثَلاَثَۃَ أَفْوَاجٍ فَوْجٌ رَاکِبِینَ طَاعِمِینَ کَاسِینَ وَفَوْجٌ تَسْحَبُہُمُ الْمَلاَئِکَۃُ عَلَی وُجُوہِہِمْ وَتَحْشُرُہُمُ النَّارُ وَفَوْجٌ یَمْشُونَ وَیَسْعَوْنَ یُلْقِی اللَّہُ الآفَۃَ عَلَی الظَّہْرِ فَلاَ یَبْقَی حَتَّی إِنَّ الرَّجُلَ لَتَکُونُ لَہُ الْحَدِیقَۃُ یُعْطِیہَا بِذَاتِ الْقَتَبِ لاَ یَقْدِرُ عَلَیْہَا )[ رواہ النسائی : باب البعث(ضعیف)] حضرت حذیفہ بن اسید حضرت ابوذر (رض) سے بیان کرتے ہیں بے شک کائنات میں سے سچے انسان نے مجھے خبر دی کہ قیامت کے دن لوگوں کو تین طریقوں سے جمع کیا جائیگا۔ ان میں سے ایک جماعت کے لوگ سوارہوں گے، بھوکے اور ننگے ہوں گے، اور تیسری جماعت کو فرشتے چہروں کے بل گھسیٹیں گے اور آگ ان کو اکٹھا کرے گی اور ایک جماعت بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان پر آفت مسلط فرمائیں گے اس سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا حتیٰ کہ ایک آدمی کا باغ ہوگا وہ اس باغ کو ایسی سواری کے بدلے دیدے گا جس پر اسے کچھ اختیار نہ ہوگا۔ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ قَالَ کُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَۃٍ لِرَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَذَکَرْنَا السَّاعَۃَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَنْ تَکُونَ أَوْ لَنْ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَکُونَ قَبْلَہَا عَشْرُ آیَاتٍ طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَخُرُوج الدَّابَّۃِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوق النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ) [ رواہ ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب أمارات الساعۃ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (ﷺ) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا اور بات چیت کے دوران ہماری آوازیں بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں نہ پوری ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا آنا، عیسیٰ ابن مریم کا نزول، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخر میں آگ یمن سے عدن کی طرف رونما ہوگی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔“ مسائل: 1۔ اسرافیل کے دوسری دفعہ صور پھونکنے پر لوگ اپنے اپنے مدفن سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ 2۔ لوگ محشر کے میدان کی طرف دوڑے جارہے ہوں گے کوئی ادھر ادھر نہیں جا سکے گا۔ 3۔ قبروں سے اٹھتے ہی ظالموں کو یقین ہوجائے گا کہ قیامت بر پا ہوچکی ہے۔ 4۔ رب رحمن کی طرف سے اعلان ہوگا کہ آج کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: صور کا پھونکا جانا : 1۔ پہلے نفخہ سے لوگ بے ہوش ہوجائیں گے۔ اور دوسرے نفخہ سے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الزّمر :62) 2۔ دوسرے نفخہ کے ساتھ ہی تمام لوگ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے۔ (یٰس :51) 3۔ ایک چیخ سے ہی تمام لوگ ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔ (یٰس :53) 4۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔ (النبا :18) 5۔ جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو ہم ان سب کو جمع کرلیں گے۔ (الکھف :99) 6۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر لائیں گے۔ (طہٰ:102) 7۔ جس دن صورپھونکا جائے گا توسب آسمان اور زمین والے سب کے سب گھبرا اٹھیں گے مگر جسے اللہ چاہے اور سارے کے سارے عاجز و پست ہو کر اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (النّمل :78)