قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ
(اس سے) کہا گیا کہ جنت میں چلا جا، کہنے لگا کاش! میری قوم کو بھی علم ہوجاتا۔
فہم القرآن: (آیت26سے27) ربط کلام : شہید مبلّغ کا بہترین انجام اور صلہ۔ قرآن مجید نے لفظاً یہ بات واضح نہیں فرمائی کہ اس عظیم مبلّغ کا اپنی قوم کے ہاتھوں کیا انجام ہوا۔ البتہ سیاق و سباق سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ قوم نے اس عظیم مبلّغ کو شہیدکر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل فرمایا جونہی اس کی روح جنت میں داخل ہوئی تو پکار اٹھی کہ کاش! میری قوم کو میرے بہترین انجام کی خبر ہوجائے۔ میرے رب نے میری خطاؤں کو معاف فرما کر مجھے اپنے مقرب بندوں میں شامل کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رہتی دنیا تک اسے یہ اعزاز بخشا گیا کہ اس کے خیالات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے الفاظ میں ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ فرمایا اور آنے والے انسانوں کو اس کے پیغام اور بہترین انجام سے آگاہ فرمایا تاکہ توحید کی دعوت دینے والے حضرات جان جائیں کہ بے شک یہ راستہ پر کٹھن ہے لیکن بالآخر اس کی منزل جنت الفردوس اور اپنے رب کا تقرب پانا ہے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِجَابِرٍ یَاجَابِرُ أَلَاأُبَشِّرُکَ قَالَ بَلٰی بَشِّرْنِیْ بَشَّرَکَ اللّٰہُ بالْخَیْرِ قَالَ أَشَعَرْتَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَحْیَاأَبَاکَ فَأَقْعَدَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ تَمَنَّ عَلَیَّ عَبْدِیْ مَاشِئْتَ أُعْطِکَہٗ فَقَالَ یَارَبِّ مَاعَبَدْتُّکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ أَتَمَنّٰیْ عَلَیْکَ أَنْ تَرُدَّنِیْ إِلَی الدُّنْیَا فَأُقَاتِلُ مَعَ النَّبِیِّ (ﷺ) مَرَّۃً أُخْرٰی فَقَالَ سَبَقَ مِنِّیْ إِنَّکَ إِلَیْھَا لَاتَرْجِعُ) [ المستدرک علی الصحیحین : باب مناقب عبداللہ بن عمروحرام] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے جابر (رض) سے فرمایا جابر! کیا میں تجھے بشارت نہ دوں؟ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں! اللہ آپ کو بہتری اور خیر کی بشارت عطا فرمائے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد کو زندہ کرکے اپنے سامنے بٹھاکر فرمایا کہ میرے بندے مجھ سے مانگ ! میں تجھے عطا کروں۔ انہوں نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا میری عرض ہے کہ آپ مجھے دنیا میں بھیج دیں تاکہ میں نبی (ﷺ) کے ساتھ مل کر قتال کروں اور پھر تیری راہ میں شہید ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرا فیصلہ ہوچکا ہے کہ تودنیا میں دوبارہ نہیں جائے گا۔“ ” عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کیے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پوٹوں میں رکھ دیا وہ جنت کی نہروں پر پھرتی ہیں اور اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں سونے کی قندیلوں میں بسیرا اور ٹھکانہ کرتی ہیں جب ان کی روحوں کو کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل ہوئی، تو کہا کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں کو یہ خبر پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور کھاتے پیتے ہیں تاکہ وہ بھی جنت کے حصول میں بے رغبتی نہ کریں اور قتال کے وقت سستی نہ دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری خبر پہنچاؤں گا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھلائے، پلائے جاتے ہیں)۔“ [ رواہ ابوداؤد : کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ] شہید کے گناہ معاف : (أَوَّلُ مَا یُہْرَاقُ مِنْ دَمٍ اَلشَّہِیْدُ یُغْفَرُ لَہٗ ذَنْبُہٗ کُلُّہٗ إِلَّا الدّیْنَ) [ صحیح الجامع : باب اول مایقضیٰ بین الناس یوم القیامۃ فی الدماء] ” شہید کے خون کے پہلے قطرہ سے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ صالح لوگوں کی ارواح کو جنت میں داخل کردیا جاتا ہے۔ 2۔ شہادت کے وقت شہید کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ شہید اور صالح لوگوں کو اپنے نیک بندوں میں شامل فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: صالح لوگوں کا صلہ : 1۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: 72، 89، 100) 2۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ:111) 3۔ اے اللہ نیک لوگوں کو برائی سے بچا جو برائی سے بچ گیا اس پر تیرا رحم ہوا یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن :9) 4۔ ان کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدّخان :57) 5۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا یہ واضح کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ :30) 6۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف :12)