وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ
اور ایک شخص (اس) شہر کے آخری حصے سے دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم! ان رسولوں کی راہ پر چلو (١)
فہم القرآن: (آیت20سے21) ربط کلام : تین انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ قوم کی کشمکش کی انتہا اور ایک خیرخواہ کا قوم کو آخری بار سمجھانا۔ قوم نے شرافت کی دیواریں پھلانگتے ہوئے جب یہ فیصلہ کرلیا کہ تینوں انبیاء کو بیک وقت قتل کردیا جائے۔ اس صورت حال کا جونہی شہر کے مضافات میں رہنے والے ایک شخص کو علم ہوا تو وہ بے قرار ہو کر دوڑتا ہوا اپنی قوم کے سر کردہ لوگوں کے پاس آیا اور انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تمہیں انبیائے کرام (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں کرنے کی بجائے ان کی اتباع کرنی چاہیے۔ ناصرف یہ ہستیاں افکار اور کردار کے لحاظ سے ہم سب سے اعلیٰ اور ممتاز ہیں بلکہ اس بات پر بھی غور کرو کہ ان کی دعوت کے پیچھے ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ تم سے کسی معاوضہ کے طلب گار نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور اس کی طرف سے ہدایت یافتہ اور تمہیں ہدایت کی دعوت دینے والے انبیاء کرام ہیں۔ مضافات شہر سے آنے والی شخصیت کا نام ” حبیب“ بتلایا گیا ہے اس نے حالات کی نزاکت اور موقع کی مناسبت کی بنیاد پر رسولوں کے دو اوصاف کا ذکر کیا ہے۔ 1 ۔یہ رسول اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ اور تمہارے لیے ہدایت کے امام ہیں۔ 2 ۔اس دعوت کے نتیجہ میں جو مصائب اور مشکلات برداشت کررہے ہیں اس کے پیچھے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہیں۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ میں یہ اوصاف ہمیشہ نمایاں اور ممتاز رہے ہیں کہ ناصرف وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہوا کرتے تھے بلکہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے رب کی ہدایت کے مطابق بسر ہوتا تھا۔ وہ اپنے رب کی طرف سے لوگوں کے لیے ہدایت کے پیشوا ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی دعوت کے سلسلہ میں جتنی مشقتیں اٹھائیں اور جس قدر محنت کی اس کے پیچھے ان کا ذاتی مفاد نہیں ہوا کرتا تھا۔ اہل مکہ اور نبی محترم (ﷺ) کے درمیان کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی تو اہل مکہ نے اپنے ایک سردار ولید بن عتبہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ اس نے آپ کے سامنے تین پیشکشیں کیں۔1 ۔اگر کسی حسین لڑکی کے ساتھ شادی کے خواہش مند ہو تو جہاں چاہتے ہو ہم شادی کروا دیتے ہیں۔ 2۔اگر دولت چاہتے ہو تو ہم آپ کی خواہش کے مطابق دولت پیش کردیتے ہیں۔3 ۔مکہ کا سب سے بڑا سردار بننا پسند کرتے ہو ہم آپ کی سرداری قبول کرتے ہیں۔ آپ نے تینوں باتوں کو مسترد کرتے ہوئے سورۃ حٰم سجدہ کی ابتدائی آیات تلاوت کیں۔ جن میں مرکزی بات یہ ہے کہ میں تو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں اور تمہارے جیسا انسان ہوں مگر میری طرف میرے رب کی وحی آتی ہے جس میں پہلی دعوت یہ ہے لوگو! تمہارا معبود صرف ایک ہے اس کے تابعدار ہوجاؤ۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ یَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) أَنْصُرُہٗ مَظْلُومًا فَکَیْفَ أَنْصُرُہٗ ظَالِمًا قَالَ تَمْنَعُہٗ مِنَ الظُّلْمِ فَذٰلِکَ نَصْرُکَ اِیَّاُہ )[ رواہ البخاری : باب اعن اخاک ظالمًا او مظلوماً] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ اپنے بھائی کی مدد کرو‘ خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا مظلوم کی مدد کروں‘ مگر ظالم کی کیسے کروں؟ آپ نے فرمایا‘ تمہارا اس کو ظلم سے روکنا ہی اس کی مدد کرنا ہے۔“ مسائل: 1۔ مظلوم کی مدد کرنے میں آدمی کو پوری مستعدی سے کام لینا چاہیے۔ 2۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) ہدایت کے پیکر اور مبلغ ہوا کرتے تھے۔ 3۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اپنی قوم سے کسی قسم کے مفاد اور معاوضہ کے طلب گ انکار نہیں ہوتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) بلا معاوضہ دین اور قوم کی خدمت سرانجام دیتے تھے : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود :29) 2۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعرا ء:127) 3۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا اجر اللہ رب العالمین پر ہے اور میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ (الشعرا : 141، 145) 4۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا میرا اجر اللہ پر ہے اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا :47) 5۔ میرا اجر اللہ پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ہود :51) 6۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں تجھ سے نہ اجر چاہتاہوں اور نہ کسی قسم کا تکلف کرتا ہوں۔ (ص :86)