إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ ۖ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ
بس آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں (١) جو نصیحت پر چلے اور رحمٰن سے بےدیکھے ڈرے، سو آپ اس کو مغفرت اور با وقار اجر کی خوش خبریاں سنا دیجئے۔
فہم القرآن: (آیت11سے12) ربط کلام : بے شک لوگوں کی اکثریت ایمان کے بارے میں اندھی ہوچکی ہے لیکن آپ (ﷺ) لوگوں کو ضرور انتباہ فرمائیں کیونکہ جو شخص اپنے رب سے غیب میں ڈرنے والاہے وہ ضرور ہدایت پالے گا۔ ہدایت پانے والے کو جنت کی خوشخبری دیجیے۔ بے شک گمراہ لوگ آپ کی محنت کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور حق کے معاملے میں اندھے ہوچکے ہیں لیکن آپ سلیم الفطرت لوگوں کو سمجھاتے رہیں کیوں کہ ” اللہ“ سے ڈرنے والے نصیحت حاصل کیا کرتے ہیں۔ جو انسان آخرت کی جواب دہی کو بھول جائے حقیقت میں وہ اندھا ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ اٹھانے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس دلانے کے لیے اسے حقیقت حال سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ اس سچائی میں کوئی شک نہیں کہ ہم قیامت کے دن مردوں کو زندہ کریں گے اور مرنے والے جو کچھ آگے بھیجتے رہے اور جو اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہم اس کو ضبط تحریر میں لارہے ہیں اور ہم نے اسے کتاب مبین میں واضح طور پر لکھ رکھا ہے۔ بنیادی طور پر ہر انسان کے اچھے اور برے اعمال کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ جن کا ہر حال میں اندراج ہوتا رہتا ہے۔ انسان جونہی کوئی عمل کرتا ہے تو کراماً کاتبین اس کے نامۂ اعمال میں لکھ کر صبح و شام آسمان کی طرف لے جاتے ہیں جو اس کے دفترِاعمال میں محفوظ کرلیے جاتے ہیں۔ اعمال کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان دنیا میں رہ کر جو نیکی یا بدی کرتا ہے اس کے برے اور بھلے اثرات دنیا میں بھی باقی رہتے ہیں۔ نیک اعمال کرنے والے کو نیکی کی جزا قیامت تک ملتی رہے گی اور جس نے اپنے حلقہ اثر میں برے اعمال چھوڑے وہ ان کے منفی اثرات کی سزا قیامت تک بھگتتا رہے گا۔ قیامت کے دن اس کے تمام اعمال کا ریکارڈ اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اگر اس کا اعمال نامہ اچھا ہوا تو وہ اپنے عزیز و اقرباء کو بلا بلا کرک ہے گا کہ دیکھیے میرا اعمال نامہ کس قدر اچھا ہے (الحاقۃ: ١٩۔ ٢٠) اس کے مقابلے میں برا آدمی اپنے اعمال نامے کو دیکھے گا تو اس تمنا کا اظہار کرے گا کہ کاش ! میں مٹی کے ساتھ مٹی ہی بنا رہتا۔ (النباء :40) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَتَعَاقَبُوْنَ فِیکُمْ مَلَآئِکَۃٌ باللَّیلِ وَمَلَآئِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَیجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ یعْرُجُ الَّذِینَ بَاتُوْا فِیکُمْ َیسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَیفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَیقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ وَاٰتَینٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ)[ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن میں فرشتے ایک دوسرے کے آگے پیچھے آتے ہیں۔ وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ جب رات والے فرشتے جاتے ہیں تو ان سے اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا حالانکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے ملائکہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے ہاں گئے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ان کو چھوڑ کر آئے تو پھر بھی نماز پڑھ رہے تھے۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ أَعْمَالَ بَنِیْٓ آدَمَ تُعْرَضُ کُلَّ خَمِیْسٍ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ فَلاَ یُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ) [ رواہ أحمد وہوحدیث حسن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا یقیناً انسان کے اعمال جمعرات کو پیش کیے جاتے ہیں۔ پس رشتہ داری توڑنے والے کے اعمال قبول نہیں کیے جاتے۔“ ﴿وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ﴾[ الانفطار : 10، 11] ” اور بے شک تم پر عزت دار لکھنے والے نگران مقرر کیے گئے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر کسی کو زندہ فرمائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز اور ہر کسی کے اعمال کو لوح محفوظ پر لکھ رکھا ہے۔ 3۔ ہر کسی کے اگلے پچھلے اور اچھے برے اعمال اس کے سامنے پیش کردئیے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: انسان کے تمام اچھے برے اعمال لکھے جاتے ہیں : 1۔ بے شک تمہاری چال بازیوں کو ہمارے قاصد لکھ رہے ہیں۔ (یونس :21) 2۔ ہم ان کی جزا لکھ لیں گے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ (الاعراف :156) 3۔ جو لوگ بولتے ہیں ہم لکھ لیتے ہیں۔ (آل عمران :181) 4۔ ہمارے قاصد ان کے اعمال لکھ رہے ہیں۔ (الزخرف :80) 5۔ ہم ان کی کہی ہوئی بات لکھ لیں گے اور ان کے عذاب کو بڑھا دیا جائے گا۔ (مریم :79) 6۔ کسی کی کوشش رائیگاں نہیں جائے گی بے شک ہم اس کو لکھ لیتے ہیں۔ (الانبیاء :94)