سورة يس - آیت 1

س

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یٰسِین (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن:(آیت1سے4) سورۃ فاطر کے آخری رکوع میں اہل مکہ کے ایک قول کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ نبی (ﷺ) کی بعثت سے پہلے قسمیں اٹھا اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ جو نہی نبی آخرالزماں آئے گا تو ہم دوسروں سے بڑھ کر ہدایت پانے والے ہوں گے لیکن جب آپ (ﷺ) نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو یہ لوگ تکبر کی بنا پرکفر و شرک میں اور ہی آگے بڑھ گئے اور پروپگنڈا کرنے لگے محمد (ﷺ) صراط مستقیم سے بھٹک چکا ہے۔ سورۃ یٰس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کے سردار ہیں، انبیاء (علیہ السلام) کی جماعت میں شامل ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ اہل علم نے لفظ ” یٰس“ کے دو معانی ذکر کیے ہیں۔ عربی کی ایک لغت کے مطابق یٰس کا معنٰی اے انسان ! اور دوسری لغت کے مطابق اس کا معنٰی ہے اے سردار۔ دونوں حوالوں اور اس سورت کے سیاق و سباق کے اعتبار سے یہ حقیقت بالکل آشکارا ہے کہ یٰس سے مراد سرورِدوعالم کی ذات اقدس ہے کیونکہ جنس کے اعتبار سے آپ انسان تھے اور مقام کے لحاظ سے تمام انسانوں بلکہ تمام انبیاء کے سردار ہیں۔ آپ (ﷺ) کو سردار کے لقب سے پکارنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کے مخالفوں کو معلوم ہو کہ جس شخصیت کی شان گھٹانے کے درپے ہو وہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر صاحب شان اور علوّمرتبت کی حامل ہے کہ خالق کائنات اسے انسانوں کا سردار کہہ کر پکارتا ہے اس میں ایک طرف سرور دوعالم کے لیے تسلی کا پہلو پایا جاتا ہے اور دوسری طرف مخالفین کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کس شان سے نوازا ہے۔ آپ کی شان صرف سردار کے لقب کے ساتھ ہی خاص نہیں کیا گیا بلکہ خالقِ کائنات نے قرآن کریم کی قسم اٹھا کر آپ کو اطمینان بخشا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا تعلق اور شمار ” اللہ“ کے رسولوں میں ہے۔ کفار آپ کے بارے میں جو چاہیں ہرزہ سرائی کریں لیکن آپ ہر حال میں سردار اور صراط مستقیم پر ہیں۔ قرآن مجید کی قسم اٹھانا : حضرت امام بخاری (رح) نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک باب باندھا ہے (باب الْحَلِفِ بِعِزَّۃِ اللَّہِ وَصِفَاتِہِ وَکَلِمَاتِہٖ) جس میں انہوں نے دواحادیث ذکر کی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی قسم اٹھائی جاسکتی ہے کیونکہ قرآن مجید ” اللہ“ کا کلام اور اس کی صفت ہے اس لیے قرآن مجید کی قسم اٹھانا جائز ہے۔ آپ (ﷺ) کی شان اور مقام : ” بے شک میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس طرح ہے جس نے ایک گھر بنایا پھر اس کو مزین کیا لیکن صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی۔ لوگ اس گھر کو دیکھتے اور اس ایک اینٹ کی جگہ خالی پا کر تعجب کا اظہار کرتے اور کہتے : یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ آپ نے فرمایا : میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں۔“ [ رواہ البخاری : باب خاتم النبیین] (أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ وَبِیَدِیْ لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِیٍّ یَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِیْ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب ] ” میں قیامت کے دن آدم کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا مگر اس اعزاز پر فخر نہیں کرتا اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اس پر میں اتراتا نہیں۔ قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) سمیت تمام نبی میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں قیامت کے دن سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھوں گا مگر اس پر کوئی فخر نہیں کرتا۔“ مسائل: 1۔ سرورِدوعالم (ﷺ) پوری کائنات کے سردار اور امام ہیں۔ 2۔ نبی (ﷺ) صراط مستقیم کے داعی ہیں۔ 3۔ قرآن مجید بڑی ہی پُر حکمت کتاب ہے۔ تفسیر بالقرآن: سرورِدوعالم (ﷺ) کا مقام اور آپ کی شان : 1۔ آپ (ﷺ) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف :158) 2۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء :107) 3۔ آپ (ﷺ) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب :40) 4۔ نبی کریم (ﷺ) کو لوگوں کے لیے ر ؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبۃ :128) 5۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی الی اللہ، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : 45۔46)