هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا (١) پھر آسمان کی طرف قصد کیا (٢) اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان (٣) بنایا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ موت وحیات کا مالک ہے اس نے انسان کو بے اختیار خلیفہ نہیں بنایا بلکہ سب کو اس کے لیے پیدا کیا اور ایک حد تک زمین کا نظام انسان کے حوالے کیا تاکہ اس کی آزمائش کرے۔ اس رکوع کی ابتدا توحید اور انسانی تخلیق کے تذکرے سے ہوئی تھی اب اس خطاب کا اختتام اللہ کی توحید پر کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ وہی تمہاری موت و حیات اور فناو بقا کا مالک ہے اور اسی کے سامنے تم نے پیش ہونا ہے۔ اس نے فقط تمہیں ہی پید انہیں فرمایا بلکہ زمین کی ہر چیز تمہارے لیے پیدا فرمائی۔ اس کے بعد عرش معلّٰی پر متمکن ہوا۔ جس طرح اس کی شایان شان ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے احترام و مقام کے پیش نظر یہ چیزیں پہلے اس لیے بنائی اور سجائی گئیں تاکہ مکیں سے پہلے مکاں، مہمان سے پہلے دسترخواں، مخدوم سے پہلے خدام، حاکم سے پہلے اس کی ریاست تشکیل پائے۔ نہ صرف ان کو آدم (علیہ السلام) کے لیے بنایا گیا بلکہ ان کو بنا کر بنی نوع انسان کے لیے مسخر بھی کردیا گیا ہے۔ (الجاثیۃ:13) استواء کا معنٰی اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر متمکن ہونا ہے۔ جس کی یہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پہلے پانی پر تھا۔ پھر جس طرح اس کی شایان شان ہے عرش پر مستوی ہوا۔ آیت کے آخر میں واضح کردیا گیا کہ اے انسان! اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر استوا ہونے کا یہ معنی نہیں کہ اب وہ زمین اور اس کے ما فیہا سے بے خبر ہے۔ نہیں! کان کھول کر سن لو! اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا فرمائی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ 3۔ اللہ ہی نے سات آسمان بنائے وہی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : 1۔ سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ (ابراہیم :33) 2۔ رات دن کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ (النحل :12) 3۔ نہروں اور کشتیوں کو مسخر فرمایا۔ (ابراہیم :33) 4۔ اللہ نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو مسخر کردیا۔ (الحج :65) 5۔ زمین کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ (البقرۃ:29)