سورة سبأ - آیت 51

وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اگر آپ (وہ وقت) ملاحظہ کریں جبکہ یہ کفار گھبرائے پھریں گے اور پھر نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہ ہوگی (١) اور قریب کی جگہ سے گرفتار کر لئے جائیں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت51سے54) ربط کلام : کفر و شرک پر قائم رہنے والوں کا انجام۔ کفار اور مشرکین جہنم کو دہکتے اور ہانپتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے پسینے چھوٹ جائیں گے اور ان کے کلیجے منہ کو آجائیں گے وہ اپنے طور پر بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ ابھی وہ بھاگنے کا سوچ ہی رہے ہوں گے کہ ملائکہ ان کی گردنیں دبوچتے ہوئے ان کے گلے میں جہنم کے طوق ڈال دیں گے اور ان کے پاؤں میں بیڑیاں پہنا دیں گے۔ ان کو کوڑوں سے ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف دھکیل دیں گے۔ اس صورت حال میں جہنمی حسرت بھرے الفاظ اور انداز میں فریاد کریں گے کہ اب ہم ایمان لاتے ہیں کیونکہ ہم نے وہ سب کچھ دیکھ اور پالیا ہے جس کی ہم تکذیب کیا کرتے تھے۔ لیکن اس وقت ایمان لانے کا مقام اور موقعہ کہاں ہوگا۔ ایمان ان سے بہت دور ہوگا۔ یعنی انہیں ایمان لانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کے لیے دنیا کی زندگی میں پورا پورا موقعہ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے اندھے پن کی وجہ سے اس موقعہ کو کھو دیا۔ اب دار العمل کی بجائے دار الامتحان ہوگا اور اس کا انجام پانے کا وقت اور مقام ہوگا اس وقت ان کی امیدوں اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا جائے گا۔ جس طرح ان سے پہلے جہنمیوں کے درمیان حائل کردیا گیا۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے بارے میں بےیقینی کا شکار تھے جو لوگ دنیا میں بے چینی کا شکار تھے اور آخرت میں ان کے اضطراب کی کوئی حد نہ ہوگی۔ کچھ مفسرین نے ان آیات کو دنیا کے عذاب پر منطبق کیا ہے کہ جب ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے تو وہ اس وقت بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں پاتے وہ ایمان لانے کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کا ایمان قبول نہیں کیا جاتا۔ جس شک میں مبتلا ہوتے اسی حالت میں موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں اور اسی انجام کو پہنچ جاتے ہیں جس انجام سے ان کے پیش رو دوچار ہوئے تھے۔ مسائل: 1۔ مجرم جہنم کا عذاب دیکھ کر گھبرا کر بھاگنے کی کوشش کررہے ہوں گے تو انہیں جکڑ لیا جائے گا۔ 2۔ مجرم ایمان لانے کی خواہش کا اظہار کریں گے لیکن انہیں موقعہ نہیں دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: مجرموں کی خواہش اور آرزوئیں : 1۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ:12) 2۔ جہنمی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹادیے جائیں گے۔ (السجدۃ:20) 3۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم جہنم سے نکلیں تو اس میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ (الحج :22) 4۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37) 5۔ اے رب ہمارے! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون :107)