سورة سبأ - آیت 28

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بے علم ہے (١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اگر مشرکین ” اللہ“ کی توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو اے نبی (ﷺ) ! آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ کیونکہ آپ صرف مکہ والوں کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے رسول بنائے گئے ہیں۔ اس فرمان میں ایک طرف نبی اکرم (ﷺ) کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر آپ کے مخاطبین آپ کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو آپ کو دل برداشتہ ہونے کی بجائے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی ایک بستی، قوم یا نسل کے لیے رسول منتخب نہیں کیا۔ آپ توہر دور کے تمام انسانوں کے لیے رسول منتخب کیے گئے ہیں۔ آپ کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اس پر ایمان لائیں گے وہ دنیا میں کامیاب اور آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ جنہوں نے اس کا انکار کیا وہ دنیا میں نقصان اٹھائیں گے اور آخرت میں اذیت ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ آپ کی دعوت سراسر لوگوں کی خیر خواہی کے لیے ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کی غالب اکثریت اسے جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) سے پہلے جتنے بھی انبیاء مبعوث کیے گئے وہ محدود علاقے اور مخصوص وقت کے لیے نبی بنائے گئے تھے۔ صرف آپ (ﷺ) کی ذات ایسی ہے جسے قیامت تک کے لیے ہر علاقے اور نسل کے لیے رسول منتخب کیا گیا ہے۔ ” اے پیغمبر اعلان فرما دیں کہ اے لوگو! میں تم سب کے لیے اللہ کا رسول بنایا گیا ہوں۔“ [ الاعراف :158] (بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ) [ رواہ احمد]” میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔“ تفسیر بالقرآن: نبی (علیہ السلام) کی عالمگیر نبوت : 1۔ رسول اللہ (ﷺ) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف :158) 2۔ نبی (ﷺ) سب کے رسول ہیں۔ (سباء :28) 3۔ رسول اللہ (ﷺ) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب :45) 4۔ آپ (ﷺ) رحمتِ دو عالم ہیں۔ (الانبیاء :107) 5۔ رسول اللہ (ﷺ) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب :40)