سورة الأحزاب - آیت 45

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے والا (١) خوشخبری سنانے والا بھیجا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت45سے48) ربط کلام : نبی آخر الزمان (ﷺ) لوگوں کو ” اللہ“ کی یاد دلانے اور اس کی توحید کی شہادت دینے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ نبی معظم (ﷺ) کو اس لیے مبعوث فرمایا گیا تاکہ آپ (ﷺ) لوگوں کو ” اللہ“ کے حکم کے مطابق ” اللہ ” کی طرف بلائیں اور ” اللہ“ کی توحید کی دعوت اور شہادت دیں اور لوگوں کو ” اللہ“ کی یاد کی تلقین کریں۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کریں انہیں دنیا و آخرت میں کامیابی اور اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل کی خوشخبری سنائیں۔ جو اس دعوت کا انکار کریں انہیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں اور جو لوگ دعوت کے راستے میں رکاوٹ بنیں وہ کافر ہوں یا منافق انہیں انکے حال پر چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے مشن کو کامیاب فرمائے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ یہاں نبی اکرم (ﷺ) کی ذات اقدس کو سراج منیر قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ہدایت کا چمکتا ہوا سورج جس سے کفر و شرک کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور نور ہدایت سے فضا منور ہوگئی گویا کہ آپ نور ہدایت تھے نور مجسم نہ تھے۔ اس حقیقت کے باوجود کچھ علماء نے اپنے باطل عقیدہ کی بناء پر نبی اکرم (ﷺ) کو نورِمجسم لکھا ہے حالانکہ نوع ذات کے اعتبار سے آپ (ﷺ) انسان تھے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں شامل ہیں جو شخص آپ کے پیکر خاکی کو نور مجسم کہتا ہے وہ کفر و شرک کی بات کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید نے بار بار آپ (ﷺ) کو بشر کہا ہے۔ ﴿قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا﴾[ الکہف :110] ” اے نبی فرمادیں میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے۔ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔“ کچھ مفسرین نے اس جہالت کا مظاہرہ کیا ہے کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے نبی اکرم (ﷺ) اس کے عمل پر گواہ ہوتے ہیں اور قیامت کے دن لوگوں کے ہر عمل پر شہادت دیں گے۔ حالانکہ عقل و نقل کے لحاظ سے یہ بات سو فیصد غلط ہے یہ ایسا عقیدہ اور بات ہے کہ جس کا کوئی صحابی (رض) بھی قائل نہ تھا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو توحید کی شہادت اور حق کی گواہی دینے والا بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ 2۔ آپ (ﷺ) مومنوں کو خوشخبری دینے والے اور کفار اور منافقوں کو انتباہ کرنے والے تھے۔ 3۔ آپ (ﷺ) نور مجسم نہیں بلکہ نورِہدایت تھے۔ 4۔ آپ (ﷺ) لوگوں کو اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والے تھے۔ 5۔ کفار اور منافقوں کی مخالفت کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنے فضل عظیم کی بشارت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نبی اکرم (ﷺ) کی عظمت و شان : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) کی شان میں گستاخی کرنے والے کافر ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (البقرۃ:104) 2۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (الفتح :8) 3۔ آپ (ﷺ) کا منصب لوگوں پر شہادت قائم کرنا ہے۔ (المزمل :15) 4۔ آپ (ﷺ) اور دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (النساء :41) 5۔ رسول کریم (ﷺ) شاہد اور مبشر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ (الاحزاب :45) نبی اکرم(ﷺ) بشر تھے: 1۔آپ(ﷺ) اعلان فرمائیں کہ میں تمھارے جیسا انسان ہوں ۔(الکھف:110) 2۔نبی آخر الزماں (ﷺ) کا اعتراف کہ میں تمھاری طرح کا بشر ہوں ۔(الکھف:110 ،حم السجدۃ:6) 3۔نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جیسا تم کھاتےہو ،ویسا وہ کھاتا ہے ۔(المومون:33)