يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو (١) اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے (٢) اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔
فہم القرآن:( آیت 32 سے33) ربط کلام : بے حیائی سے بچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عورت غیر محرم سے بات کرتے ہوئے اپنی زبان میں کسی حد تک بے اعتنائی کا اظہار کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام اخلاق اور اچھی گفتگو کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن عورت کا غیر محرم کے ساتھ اخلاق یہ ہے کہ وہ اس سے بات کرتے ہوئے اپنی زبان میں نسبتاً بیگانگی کا اظہار کرے تاکہ جس شخص کے دل میں بے حیائی کا کچھ مرض ہے وہ غلط توقعات وابستہ نہ کر بیٹھے۔ تاہم اس ہدایت کا یہ معنٰی نہیں کہ عورت غیرمحرم سے بات کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرے یا ایسا انداز اختیار کرے جس میں بد خلقی پائی جائے اس کی اجازت نہیں ہے۔ مسلمان عورتوں کو بے حیائی سے بچانے اور مسئلہ کی اہمیت جتلانے کے لیے امہات المؤمنین کو مخاطب کیا گیا ہے۔ تاکہ مسلمان بیٹیوں کو احساس ہو کہ اہم ضرورت کے وقت ہم نے غیر محرم سے کس طرح بات کرنی ہے۔ عورتوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔ کیونکہ عورت بازارحسن یا مارکیٹ کا مال نہیں بلکہ گھر کی محافظ، وقار اور ملکہ ہے۔ اگر عورت صحیح معنوں میں گھر کی ذمہ داری نبھائے تو اسے سخت مجبوری کے سوا گھر سے نکلنے کی فرصت کہاں ملتی ہے۔ پابندی کا یہ مطلب نہیں کہ عورت رشتہ داروں اور اپنی سہیلیوں کے ہاں نہیں جا سکتی یا مجبوری کے تحت کوئی کاروبار نہیں کرسکتی۔ قرآن مجید عورت پر ضرورت کے تحت گھر سے باہرنکلنے پر پابندی نہیں لگاتا بلکہ پابندی اس بات پر ہے کہ جب گھر سے نکلنا پڑے تو حسن وجمال کی نمائش کرتے ہوئے نہ نکلے جسے قرآن مجید نے دورِجاہلیت کا نکلنا قرار دیا ہے۔ حدیث شریف میں عورت کو یہاں تک ہدایت کی گئی ہے کہ اگر وہ باجماعت نماز ادا کر رہی ہو تو امام کے بھولنے کی صورت میں کوئی مرد لقمہ نہ دے پائے تو عورت لقمہ دینے کی بجائے اپنے الٹے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو اس کی غلطی سے متنبہ کرے۔ (رواہ البخاری : باب التصفیق للنساء) اس سے اندازہ فرمائیں کہ دین غیر محرم عورت اور مرد کے اختلاط کو کس قدر نا پسند کرتا ہے۔ چہ جائیکہ عورت ٹی وی، ریڈیو، کیبل اور اخبارات میں آ کر پورے ناز نخرے کے ساتھ لوگوں کے سامنے اپنے انگ انگ کی نمائش کرے۔ قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں باوقار طریقے کے ساتھ رہیں جس کے لیے ﴿ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا معنٰی قرار اور وقار کیا گیا ہے۔ یعنی اپنے گھر میں قرار پکڑو اور وقار کے ساتھ رہو اور نماز پڑھو، زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اسکے رسول کی تابعداری میں لگی رہو۔ ” تَبَرُّجْ“ کا معنی بے پردگی اور خوبصورتی کا اظہار کرنا ہے۔ اسی طرح ” تَبَرُّجْ“ کا معنٰی ابھار اور نمایاں ہونا بھی ہے۔ اہل بیت اور ان کا مقام : پاکستان میں شیعہ اور بریلوی حضرات فکر وعمل کے اعتبار سے ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں اس لیے مولانا پیر کرم شاہ صاحب بریلوی کی تفسیر سے من وعن اقتباس تحریر کیا جاتا ہے : اس آیت کا سیاق و سباق دیکھنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آیت کے اس جملہ [اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ] میں بھی وہی مخاطب ہیں جن سے پہلے اور بعد میں خطاب ہورہا ہے۔ اور وہ ازواج مطہرات ہیں اور اہل بیت سے بھی ازواج مراد ہیں۔ فرقہ وارانہ تعصّب سے بلند اور خالی الذّہن ہو کر اگر ان آیات کا مطالعہ کیا جائے تو ان آیات کا یہی مفہوم ہے جو بلا تکلّف سمجھ آتا ہے یعنی خدا نہ بھلا کرے فرقہ ورانہ تعصّبات کا کہ وہ حق فہمی کی راہ میں پہاڑ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شیعہ حضرات کو اس بات پر اصرار ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات داخل نہیں۔ اس سے مراد فقط حضرات خمسہ ہیں یعنی امام المرسلین (ﷺ)، امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ، حضرت سیّدہ فاطمہ طاہرہ اور حضرت حسنین کریمین (رض) اپنے اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل انہوں نے پیش کیے ہیں وہ پیش خدمت ہیں۔ انہیں پڑھیے ! سنجیدگی سے ان پر غور کیجیے اور ازروئے انصاف یہ فیصلہ کیجیے کہ راہ حق سے کون بہک گیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : 1 ۔اس جملہ میں ضمیریں مذکر ذکر کی گئی ہیں ” عَنْکُمُ“ اور ” یُطَھِّرَکُمْ“ اگر ان کا مرجع ازواج مطہرات ہوتیں تو مؤنث کی ضمیریں ذکر کی جاتیں۔ ” عَنْکُمُ“ کی بجائے ’’عَنْکُنَّ“ آجاتا اور ” یُطَھِّرَکُمْ“ کی بجائے ” یُطَہِّرُکُنَّ“ ہوتا۔ 2 ۔آیت کے اس حصہ میں ” بَیْتِ“ واحد مذکور ہے۔ یہ چیز ازواج کی نفی کرتی ہے کیونکہ جہاں ان کے گھروں کا ذکر ہے وہاں بیت کی جمع بیوت مذکور ہے۔ جیسے ﴿ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾ اور ﴿ وَاذْکُرْنَ مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾ ہیں۔ 3 ۔اس سلسہ میں جو بڑی وزنی بات انہوں نے کہی ہے کہ ” اِنَّمَا“ حصر کے لیے آتا ہے یعنی جو چیز اس کے بعد مذکور ہے اس کے لیے یہ فعل ثابت ہے اور جو مذکور نہیں اس سے یہ فعل منفی ہے۔ نیز ارادہ کی دو قسمیں ہیں وہ ارادہ جس کی مراد کا پایا جانا یا نہ پایا جانا مستلزم نہیں، دوسرا وہ ارادہ جس کے ساتھ مراد کا پایا جانا ضروری ہے یعنی ایسا ارادہ جس پر ”تَطْہِیْرًا“ اور ” اذھاب رجس“ ضرور مرتب ہوگا۔ اس مقام پر ارادہ ” محصّنہ“ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا ارادہ تو ہر مومن کے لیے ہے کہ وہ ہر ناپاکی سے منزّہ ہو، ظاہری اور باطنی نجاستوں سے اس کا دامن حیات پاک ہو۔ اہل بیت کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں۔ حالانکہ یہ مقام مدح اہل بیت کا ہے۔ یہاں تو کسی ایسی چیز کا ذکر ہونا چاہیے جو ان کے ساتھ مخصوص ہو اور وہ ارادہ کا دوسرا معنٰی ہے جس سے ان حضرات کی عصمت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ازواج مطہرات کی عصمت کا کوئی بھی قائل نہیں۔ یہاں وہی لوگ مراد ہوں گے جن کی عصمت ثابت ہے اور وہ حضرات خمسہ ہیں۔ اس لیے ثابت ہوا کہ یہاں اہل بیت سے مراد ازواج نہیں ہیں۔ امید ہے کہ یہ دلیل پیچ در پیچ آپ نے سمجھ لی ہوگی۔ 4 کتب اہل سنت میں بھی ایسی احادیث بکثرت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج نہیں بلکہ حضرات خمسہ ہیں۔ شیخ الطائفہ طوسی نے التبیان میں اور شیخ طبرسی نے مجمع البیان میں اور اسی فرقہ کے دوسرے مفسرین نے اپنی تفاسیر میں یہی دلائل پیش کیے ہیں۔ آئیے ! ان دلائل کا بنظر انصاف جائزہ لیں۔ ان کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اگر ازواج مراد ہوتیں تو ضمیریں مؤنث کی ذکر کی جاتیں۔ اس لیے گزارش ہے کہ آیت کے اس حصّہ میں اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ مذکر ہے اگرچہ معنٰی مؤنث ہے اور عربی زبان میں بسا اوقات معنٰی کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ صرف لفظ کے مطابق ضمیر ذکر کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ سورۃ ہود کی آیت 71، 72، 73 ملاحظہ فرمائیے ! جہاں فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ پاس ہی حضرت سارہ [ کھڑی ہیں۔ آپ وفود مسرّت سے ہنس پڑی ہیں۔ ساتھ ہی اظہار تعجب کرتے ہوئے فرماتی ہیں۔ ﴿یٰوَیْلَتٰٓی ءَ اَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ ھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًااِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ﴾ یعنی میں بوڑھی اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہے کیا میرے ہاں بچہ پیدا ہوگا ؟ یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے۔ فرشتے حضرت سارہ (علیہ السلام) کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں ﴿قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ﴾اے حضرت خلیل (علیہ السلام) کی رفیقہ حیات ! کیا تم اللہ تعالیٰ کے حکم پر تعجب کررہی ہو۔ اے اہل بیت ! تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔” تَعْجَبِیْنَ“ مؤنث کا صیغہ ہے لیکن بعد میں اہل بیت کے لفظ کے پیش نظر ” عَلَیْکُمْ“ میں مذکر کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں اسی صفحہ کی پہلی آیت میں ﴿ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ﴾ پر غور کیجیے۔”یَقْنُتْ“ مذکر کا صیغہ ہے لیکن بلا اختلاف اس سے مراد ازواج ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ” مَنْ تَّقْنُتْ“ ہوتا لیکن ” مَنْ“ کے لفظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ” یَّقْنُتْ“ فرمایا گیا۔ اس لیے شیعہ حضرات کا یہ استدلال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ دوسری دلیل کے بارے میں عرض ہے کہ ازواج مطہرات کے حجروں کی دو حیثیتیں ہیں ایک حیثیت تو یہ ہے کہ امّہات المومنین کی قیام گاہیں ہیں۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ ان حجروں میں نبی اکرم (ﷺ) کی ازواج مطہرات اقامت گزیں ہیں۔ جب ان حجروں کا ذکر ازواج کی قیام گاہوں سے ہو تو انہیں جمع ذکر کیا جاتا اور جب آپ (ﷺ) کی نسبت سے ہو تو واحد ” وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ“ میں ہر زوجہ محترمہ کو حکم ہے کہ وہ اپنے اپنے حجرہ میں ٹھہرے۔ اسی طرح ’’مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ“ میں بھی ہر بی بی کا حجرہ مراد ہے۔ کیونکہ وحی کا نزول مختلف حجرات میں ہوتا تھا۔ لیکن اہل البیت میں ” بَیْتِ“ سے مراد آپ (ﷺ) کی قیام گاہ ہے اس لیے اس کو واحد ذکر کیا گیا۔ تیسرا استدلال بھی بڑا انوکھا ہے۔ آپ کی دلیل کا دارومداراس بات پر ہے کہ یہ مقام مدح اہل بیت ہے۔ حالانکہ یہ مقام مقام مدح نہیں بلکہ مقام موعظت و ارشاد ہے۔ جو باتیں اور جو خوبیاں اہل بیت کو اپنانی چاہئیں اور جس ضابطہ حیات کی انہیں پابندی کرنا چاہیے اس کا تفصیلی ذکر ہور ہا ہے اس لیے اس دلیل کی بنیاد ہی درست نہیں۔ نیزعصمت انبیاء کا عقیدہ تو متفقہ عقیدہ ہے۔ لیکن دوسرے حضرات کی عصمت آپ کا اپنا مفروضہ ہے۔ اس پر دلیل کی عمارت کیسے تعمیر کی جاسکتی ہے۔ نیز اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہاں سے عدم عصمت ثابت ہوتی ہے ورنہ تحصیل لاحاصل لازم آئے گی۔ یعنی جو ہستیاں پہلے ہی معصوم اور ہر طرح کے رجس سے منزّہ اور مبرّہ ہیں ان کے متعلق یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ان کو پاک اور طاہر کرنا چاہتا ہے اس کا کوئی مطلب نہیں۔ اس کے علاوہ اگر اہل سنت کی عصمت کا ذکر ہی بطور مدح کرنا مقصود ہوتا تو آیت یوں ہونی چاہیے تھی۔ ” اِنَّمَا اَرَاد اللّٰہُ اَذْھَبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَطَہَّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ آیت اس طرح نہیں ہے۔ ان صاحبان نے چوتھی دلیل یہ پیش کی ہے کہ اہلِسنت کی کتب میں بھی بکثرت ایسی احادیث ہیں جو اکابر صحابہ ابو سعیدخدری، انس بن مالک، واثلہ بن اسقع، امّ المومنین عائشہ اور امّ المومنین امّ سلمہ (رض) سے مروی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت سے مراد حضرات خمسہ ہیں اور ازواج اہل بیت میں داخل نہیں۔ اس کے متعلق گزارش ہے کہ وہ احادیث جن میں یہ مذکور ہے کہ یہ آیت فقط ان حضرات قدسی صفات کے حق میں نازل ہوئی۔ ان کے راوی مجروح اور ساقط الاعتبار ہیں۔ جن کی تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہے اور جن کے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔ ان میں کوئی تخصیص مذکور نہیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ امّہات المومنین اور یہ حضرات سب اہل بیت میں شامل ہیں اور یہی حق ہے اور اسی پر ہمارا ایمان ہے۔ کچھ لوگوں نے اہل بیت کے لفظ کو نبی (ﷺ) کی ازواج کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ حالانکہ حدیث کی روشنی میں اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ حضرت علی، حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت حسن و حسین (رض) بھی شامل ہیں۔ (عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ قَالَتْ فِیْ بَیْتِیْ اُنْزِلَتْ ﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ قَالَتْ فَاَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہ (ﷺ) إِلٰی فَاِطِمَۃَوَعَلِیٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ فَقَالَ ہٰؤُلٓاءِ اَہْلُ بَیْتِیْ قَالَتْ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا اَنَا مِنْ اَہْلِ الْبَیْتِ قَالَ بَلٰی اِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالٰی)[ رواہ البیھقی : باب الدلیل علی ان ازواجہ (ﷺ) من اہل بیتہ فی الصلوۃ علیہن] ” حضرت امّ سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت فاطمہ، حضرت علی اور حضرت حسن و حسین] کو بلایا اور فرمایا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ حضرت امّ سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں ان شاء اللہ تعالیٰ !“ مخصوص نظریہ رکھنے والے ایک فرقہ کی ستم ظریفی مولانا مودودی کا ارشاد : مولانا مرحوم کی کتاب خلافت ملوکیت کے حوالے سے کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ مولانا صاحب کا رجحان اہل تشیع کی طرف ہے اس لیے ان کی تحریر پیش خدمت ہے۔ ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا کہ ازواج مطہرات کو ” اہل بیت“ سے خارج کرکے صرف حضرت علی، فاطمہ (رض) اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کردیا بلکہ اس پر مزید ستم یہ کیا کہ اس کے الفاظ ” اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے“ سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علی و فاطمہ (رض) اور ان کی اولادانبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ” رِجْسٌ“ سے مراد خطا اور گناہ ہے اور ارشاد الٰہی کی رو سے یہ ” اَہْلَ الْبَیْتِ“ اس سے پاک کردیئے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کردی گئی اور تم بالکل پاک کردیئے گئے بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا اور تمہیں پاک کردینا چاہتا ہے۔ سیا ق و سباق بھی ہی نہیں بتاتا کہ یہاں مناقب اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویّہ اختیار کروگے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہوگی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر ﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا﴾ کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کردیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو، غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیونکہ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ﴾ ” مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردے (المائدۃ:6) (تفہیم القرآن : جلد4) عن جابر بن عبد الله، قال: رايت رسول الله (ﷺ)في حجته يوم عرفة وهو على ناقته القصواء يخطب فسمعته يقول: " يا ايها الناس إني قد تركت فيكم ما إن اخذتم به لن تضلوا، كتاب الله وعترتي اهل بيتي ". جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا، آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا:اے لوگوں! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہوگے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے :ایک اللہ کی کتاب ہے دوسری میری (عترت)یعنی اھل بیت ہیں عن زيد بن ارقم رضي الله عنهما، قالا: قال رسول الله (ﷺ): " إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي، احدهما اعظم من الآخر، كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الارض، وعترتي اهل بيتي , ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما زید بن ارقم رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: ”میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری «عترت» یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو مسائل: 1۔ نبی کریم (ﷺ) کی بیویوں کا مقام و مرتبہ عام عورتوں جیسا نہیں ہے۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) کی بیویوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی آوازوں میں جھکاؤ پیدا نہ کرو۔ 3۔ آپ (ﷺ) کی بیویوں کو معقول بات کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 4۔ آپ (ﷺ) کی بیویوں کو اپنی زیب وزینت ظاہر کرنے اور جاہلیت کے گمان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ 5۔ آپ (ﷺ) کی بیویوں کو اخلاقی اطوار سمجھانے کے ساتھ نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی بیویوں کو ان احکام پر عمل کرنے کا اس لیے حکم دیا تاکہ ان کو پاک کردے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو پاک کرتا ہے : 1۔ پاک وہی ہے جسے اللہ پاک کرے۔ (النساء :49) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہود کے الزام سے پاک کیا۔ (الاحزاب :69) 3۔ حضرت یوسف کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف :31) 4۔ عیسیٰ نے گود میں اپنی والدہ کی پاکدامنی کا اعلان فرمایا۔ (مریم :30) 5۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ:108) 6۔ ہم نے اسے لڑکپن میں دانائی عطا فرمائی تھی اور اپنی جناب سے پاکیزگی اور شفقت عطا فرمائی تھی وہ پرہیزگار تھے اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے، سرکش اور نافرمان نہ تھے۔ (مریم : 12تا14) 7۔ جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا وہ فلاح پا گیا۔ (الاعلیٰ:14)