يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا
اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو بھی کھلی بے حیائی (کا ارتکاب) کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا (١) اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی سہل (سی بات) ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : نبی مکرم (ﷺ) کے ساتھ آپ کی ازواج کا کردار بھی امت کی عورتوں کے لیے نمونہ قرار دیا۔ اس لیے آپ کی ازواج کو حکم ہوا۔ سادگی اور شرم وحیاء کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے نبی کریم (ﷺ) کی ازواج کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کا مقام عام عورتوں جیسا نہیں وہ تو امہات المومنین ہیں اس لحاظ سے امّہات المؤمنین تمام عورتوں سے افضل اور اعلیٰ ہیں لہٰذا ان کا کردار بھی اعلی ہونا چاہیے تھا۔ یہاں یہ مفہوم لینے کی ہرگز اجازت نہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کی کسی بیوی سے کردار اور حیا کے حوالے سے کسی گراوٹ کا خدشہ تھا ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ بتلانا مقصودیہ ہے کہ جس طرح نبی کریم (ﷺ) کی ازواج مطہرات کو سادگی میں مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ بننا ہے اسی طرح انہیں کردار اور حیا میں بھی نمونہ بننا ہے کیونکہ اولاد اپنی ماں سے زیادہ متاثر ہوتی ہے بالخصوص بیٹیاں ماں کے نقش قدم پر چلتی ہیں اس لیے امّہات المؤمنین کو اپنی روحانی اولاد کے لیے نمونہ بننا چاہیے اس کے ساتھ یہ بھی بیان کردیا گیا کہ اگر نبی (ﷺ) کی ازواج سے کسی اخلاقی گرواٹ کا اظہار ہوگا تو انہیں سزابھی دوگنی ہوگی انہیں عذاب دینا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں جس کا معنٰی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی عظمت اور حرمت تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا نہیں سکے گی۔ اس سے یہ مسئلہ خود بخود نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی حرمت اور واسطے کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ ہاں ازواج مطہرات میں سے جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی تابعداری اور نیک عمل کرے گی ان کے لیے اجر بھی دوگنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بہترین رزق تیار کر رکھا ہے اس فرمان میں یہ اصول اشارتاً بتلایا گیا ہے کہ معاشرے کے بڑے لوگ اور قوموں کے راہنماؤں کی وجہ سے لوگ بگڑتے اور سنورتے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنی اور دوسروں کی سزا بھی بھگتنا پڑے گی اگر یہ نیک ہوں گے تو ان کی وجہ سے لوگوں میں سنوار پیدا ہوگا ہے لہٰذا انہیں اجر بھی دوگنا دیا جائے گا اس میں ماں، باپ، استاد اور مذہبی رہنما بھی شامل ہیں۔ اسی بات کو نبی (ﷺ) نے ایک خط میں یوں تحریر فرمایا تھا۔ نبی محترم (ﷺ) کے خط کا اقتباس : نبی اکرم (ﷺ) نے صلح حدیبیہ کے بعد دنیا کے اکثر حکمرانوں کو خطوط لکھے جن میں انہیں اسلام کی دعوت دی۔ ان میں ایک خط روم کے بادشاہ ہرقل کو لکھا جس میں اسلام کی دعوت دینے کے بعد تحریر کروایا کہ اگر تو مسلمان نہ ہوا تو (فَإِنِّیْ أَدْعُوْکَ بِدِعَایَۃِ الْإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ یُؤْتِکَ اللَّہُ أَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ إِثْمُ الأَرِیسِیِّیْنَ) [ رواہ البخاری : باب دُعَاء النَّبِیِّ (ﷺ) إِلَی الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّۃِ] ” میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرلو تو سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر عطاکرے گا۔ اگر تو نے اعراض کیا تو تیری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔“ روم کی اکثر آبادی کسان پیشہ تھی اس لیے آپ (ﷺ) نے ہرقل کی عوام کے لیے ” اَلْاَرِیْسِیِّیْنَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مسائل: 1۔ بڑے لوگوں کو دوگنا عذاب ہوگا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی بڑے کو عذاب دینا مشکل نہیں۔ 3۔ جو بڑے لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی تابعداری کریں گے انہیں دوگنے اجر سے نوازا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: بڑے مجرموں کو دوگنا عذاب ہوگا : 1۔ جہنم میں داخل ہونے والے اپنے سے پہلوں کو دیکھ کرکہیں گے۔ ہمیں گمراہ کرنے والے یہی لوگ تھے انہیں دوگنا عذاب دیا جائے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہر ایک کے لیے دوگنا ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ (الاعراف : 38۔39) 2۔ اے ہمارے پروردگار ان کو دوگنا عذاب دے اور ان کو لعنت سے دوچار کر۔ (الاحزاب :68) 3۔ انہیں دنیا اور آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل :75) 4۔ مجرموں کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب کے سوا کچھ نہیں۔ ( البقرۃ :85) 5۔ کفار کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں برا عذاب ہے۔ (البقرۃ:114) 6۔ کافروں کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ (المائدۃ:41) 7۔ کفارکے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اللہ قیامت کو سخت عذاب چکھائے گا۔ (الحج :9)