وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا
اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو غصے بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا (١) اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا (٢) اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا اور غالب ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : رسول معظم (ﷺ) کے اسوہ کی اہمیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کردار بیان کرنے کے بعد احزاب میں شریک ہونے والے کفار کی ہزیمت کا ذکر۔ کفار، یہود اور ان کے حلیف اس نیت کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے کہ مدینہ کی ننھی منی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ اور مسلمانوں کو تہس نہس کردیا جائے گا۔ اس کے لیے انہوں نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ بھی ساز باز کرلی۔ اہل مکہ نے تقریباً ایک مہینہ تک مدینہ کا محاصرہ کیے رکھا اور باربارخندق عبور کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔ اس کے باوجود انہوں نے مسلمانوں پر اس قدر دباؤ قائم رکھا کہ ایک دن نبی (ﷺ) اور آپ (ﷺ) کے رفقاء کو ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز بروقت پڑھنے کا موقعہ نہ مل سکا۔ آپ (ﷺ) نے چاروں نمازیں نصف رات کے قریب بالترتیب ادا کیں۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے باد وباراں کے شدید ترین طوفان کے ذریعے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ جس سے کفارکے خیمے اکھڑ گئے۔ یہاں تک کہ چولہوں پر پڑی ہنڈیاں الٹ گئیں اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی کمک بھیجی۔ جنہوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح کفار پوری دنیا میں ذلیل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو بدو جنگ کرنے سے بچالیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نہایت طاقتور اور زبردست ہے۔ غزوہ احزاب کی واپسی کے موقعہ پر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا۔ ( الآنَ نَغْزُوْہُمْ وَلاَ یَغْزُوْنَنَا، نَحْنُ نَسِیْرُ إِلَیْہِمْ )[ رواہ البخاری : باب غَزْوَۃُ الْخَنْدَقِ] ” اب ہم کفار پر یلغار کریں گے وہ ہم پر یلغار نہیں کرسکیں گے۔ ہم ہی ان کی طرف پیش قدمی کریں گے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ احزاب کے موقع پر نبی (ﷺ) اور صحابہ کرام (رض) کی مدد فرمائی اور کفار کو ذلیل کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ بڑا طاقتور اور ہر اعتبار سے غالب ہے۔