النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا
پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے (١) ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں (٢) اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بنسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار (٣) (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو (٤) یہ حکم (الٰہی) میں لکھا ہے (٥)۔
فہم القرآن: ربط کلام : اس سے پہلے نبی اکرم (ﷺ) اور مسلمانوں کو کسی کو اپنا بیٹا قرار دینے سے منع کیا گیا ہے اب نبی اکرم (ﷺ) کا امت کے ساتھ رشتہ اور مسلمانوں کے آپس میں رشتے کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس فرمان میں یہ بتلایا ہے کہ سروردوعالم (ﷺ) کا اپنی امت کے ساتھ اور امت کا اپنے نبی (ﷺ) کے ساتھ کیا رشتہ ہے یہ ایسا رشتہ ہے جو تمام رشتوں سے زیادہ مقدس اور مقدم ہے اور ہونا چاہیے۔ سروردوعالم (ﷺ) اپنے ساتھیوں کے لیے خود ان کی جانوں سے زیادہ خیرخواہ ہیں۔ لہٰذا مومنوں کے لیے بھی نبی کریم (ﷺ) سب سے زیادہ محبوب اور مقدم ہونے چاہیں۔ اس خصوصیت کے ساتھ نبی (ﷺ) کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ نبی (ﷺ) کی بیویاں اسی طرح ان کے لیے حرام ہیں جس طرح مسلمانوں کی مائیں ان پر حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم (ﷺ) کے سوا دنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواج مطہرات صرف اسی معنٰی میں امہات المومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہوسکتا تھا۔ باقی دوسرے احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان ان کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے بہنیں نہیں تھیں ورنہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح حرام ہوتا۔ ان کے بھائی بہن مسلمانوں کے لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی (ﷺ) کو حاصل ہے جن میں لامحالہ حضرت عائشہ (رض) بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی، حضرت فاطمہ (رض) اور ان کی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نظام دین انہی کے گرد گھمادیا اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) کو بھی ہدف لعن وطعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہوگئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انہیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس مشکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت علی (رض) کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیت میں باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ ابو منصور احمد بن ابو طالب طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبداللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضور (ﷺ) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا : ’’ یَااَبَا الْحَسَنِ اَنَّ ہٰذَا الشَّرْفَ بَانٍ مَادُمْنَا عَلٰی طَاعَۃِ اللّٰہِ تَعَالیٰ فَاَیَّتُہُنَّ عَصَتِ اللّٰہَ تَعَالیٰ بَعْدِیْ بالْخُرُوْجِ عَلَیْکَ فَطَلِّقْہَا مِنَ الْاَزْوَاجِ وَاسْتَقِطْہَا مِنْ شَرْفِ اُمَّہَاتِ الْمُوؤمِنِیْنَ‘‘” اے ابو الحسن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔ لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تو طلاق دے دیجیو اور اس کو امہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو۔“ اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سورۃ احزاب کی آیت 28۔ 29اور 51۔ 52پر غور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے کیونکہ آیت ” تخییر“ کے بعد جن ازواج مطہرات نے ہر حال میں رسول اللہ (ﷺ) ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور (ﷺ) کو باقی نہ رہا تھا۔ علاوہ بریں ایک غیر متعصب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس روایت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو اور رسول پاک (ﷺ) کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تروبرتر ہے ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تو اسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل بیت کی محبت کے مدعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزت وناموس کا پاس کتنا کچھ ہے اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔ (تفہیم القرآن : جلد ٤) نبی کریم (ﷺ) کا امت کے ساتھ تعلق اور محبت : ﴿لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾[ التوبۃ:128] ” بلاشبہ یقیناً تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول آیا ہے جس پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت شاق گزرتا ہے، تمہاری بھلائی کے بارے میں بہت خواہش رکھتا ہے، ایمان والوں پر بہت شفقت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔“ (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے اپنے والدین‘ اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔“ مواخات صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) : ہجرت کے بعد مہاجروں کی آباد کاری کا مسئلہ بہت اہم تھا نبی اکرم (ﷺ) نے اس مسئلہ کو یوں حل فرمایا آپ (ﷺ) نے انس (رض) کے گھر مہاجر اور انصار کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا یہ رشتہ اس قدر مضبوط اور محترم ہوا کہ مواخاتی بھائی ایک دوسرے کی وراثت میں حصہ دار بن گئے جب مسلمانوں کی حالت بہتر ہوگئی تو اس قانون کو ختم کردیا گیا اور حکم ہوا کہ کتاب اللہ میں جن وارثوں کی تفصیل دی گئی وہی رشتہ دار ہی ایک دوسرے کی وراثت میں حقدار ہوں گے البتہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہوسکتا ہے اور کسی کے حق میں اپنے مال سے تیسرے حصہ تک وصیت کی جا سکتی ہے۔ البتہ جو وراثت میں حصہ دار ہے اس کے لیے مال والا وصیت نہیں کرسکتا۔ (عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ﷺ) يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى لِكُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ((رواہ الترمذی:باب اذا نزل العدو علی حکم رجل (صحیح)) ’’حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ)نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پرفرمایا:اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کا حق مقرر فرمادیا ہے اس لیے اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔‘‘ مسائل: 1۔ نبی اکرم (ﷺ) مسلمانوں کے لیے ان کی ذات سے مقدم ہیں۔ 2۔ ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں۔ 3۔ مومن ایک دوسرے سے ان کے غیر مسلم رشتہ داروں سے زیادہ قریب ہیں اور ہونے چاہئیں ۔ تفسیر بالقرآن: نبیﷺ کا امت کے ساتھ رشتہ اور تعلق: بلاشبہ نبی ایل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں ،مگر’’اللہ‘کی کتاب کے مطابق عام مؤمنین ومہاجرین کی نسبت ان کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں،البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ کوئ بھلائی کرنا چاہوتو کر سکتے ہویہ حکم قرآن میں لکھا ہوا ہے۔(الاحزاب:6)