أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ ۖ أَفَلَا يُبْصِرُونَ
کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پانی کو بنجر زمین کی طرف بہا کرلے جاتے ہیں پھر اس سے ہم کھیتیاں نکالتے ہیں جسے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں (١) کیا پھر بھی یہ نہیں دیکھتے ـ۔
فہم القرآن: (آیت27سے30) ربط کلام : پہلی اقوام کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتے تھے یہاں تاریخی اور جغرافیائی نشانیوں کی نشاندہی کرنے کے بعد بارش سے سبق حاصل کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں اقوام کے تباہ شدہ کھنڈرات سے عبرت حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اب بارش اور اس کے پانی سے اگنے والی نباتات پر غور کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے دیکھو اور غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بارش نازل کرتا ہے اور پھر اس پانی سے زمین کو سیراب کرتا اور فصلیں اگاتا ہے اس سے تمہارے چوپائے بھی کھاتے اور تم بھی اپنی خوراک حاصل کرتے ہو لیکن پھر بھی تم عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے! بارش بذات خود اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ اور اس کی رحمت کاسرچشمہ ہے اس سے کیڑے مکوڑے، درند، پرند، چوپائے اپنے حسب حال اور ضرورت مستفید ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے نباتات، انگوریاں اور فصلیں پیدا کرتا ہے جس سے دوسری مخلوق کے ساتھ چوپائے اور انسان اپنی روزی حاصل کرتے ہیں۔ بارش کے فوائد ذکر کرنے کے ساتھ یہ بتانا مقصود ہے کہ بارش کی وجہ سے زمین سے نباتات اگتی ہے اسی طرح ایک دن آئے گا جب تمہاری موت کے بعد تمہیں بھی اٹھا لیاجائے گا۔ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے باوجود آپ سے سوال کرتے ہیں کہ فیصلے کا دن کب آئے گا ؟ اس سوال کے پہلے بھی جواب دئیے گئے ہیں یہاں صرف یہ بتلایا ہے کہ آپ انہیں فرمادیں کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں یہ قیامت دیکھنے کے بعد ایمان لائیں گے۔ لیکن ان کا ایمان اس دن انہیں فائدہ نہیں دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی اگر یہ لوگ اس پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ ان کا خیال چھوڑ دیں آپ بھی انتظار فرمائیں اور یہ بھی انتظار کریں۔ اللہ تعالیٰ چاہے گا تو دنیا میں ان کی پکڑ کرے گا ورنہ قیامت کے دن ان سے ضرور پوچھا جائے گا۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن کفار کا ایمان لانا انہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ 2۔ ضدی لوگوں کے ساتھ الجھنے کی بجائے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: ہٹ دھرم اور جہالوں اعراض کرنے کا حکم : 1۔ نبی (ﷺ) کو جاہلوں سے اعراض کی ہدایت تھی۔ (اعراف :199) 2۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ:67) 3۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود :46) 4۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان :63) 5۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر جمع فرما دیتا پس آپ جاہلوں میں سے نہ ہوں۔ (الانعام :35) 6۔ آپ (ﷺ) جاہلوں سے اعراض کریں اور اللہ پربھروسہ کریں کیونکہ اللہ ہی نگہبان ہے۔ (النساء :81) 7۔جہالت کے بارے میں حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سےمعافی طلب کی ۔(ہود:47)