سورة لقمان - آیت 34

إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا ؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : جس دن سے لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔ یقیناً اللہ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب برپا ہوگی وہی بارش نازل کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ ماں کے رحم میں کیا ہے کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا۔ کسی نفس کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کس جگہ واقع ہوگی۔ یقیناً اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ انہیں حتمی طور پر کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کا علم : کتب حدیث میں قیامت کے بارے میں بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے یہاں تک ارشاد فرما دیا ہے کہ قیامت جمعہ کے دن واقع ہوگی اور جن لوگوں پر قیامت برپا ہوگی وہ بدترین لوگ ہوں گے۔ قیامت کا آغاز اچانک ہوگا۔ واضح نشانیاں بتلانے کے باوجود قیامت کے برپا ہونے کا سال، مہینہ اور دن کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کون سے سال اور مہینے کا کونسا جمعہ ہوگا۔ نبی اکرم (ﷺ) نے جبریل امین (علیہ السلام) کے ایک سوال کے جواب میں یہی ارشاد فرمایا تھا کہ جس طرح تجھے معلوم نہیں اسی طرح مجھے خبر نہیں کہ قیامت کب برپا ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ کَان النَّبِیُّ () بَارِزًا یَوْمًا للنَّاسِ فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ۔۔ فقَالَ مَتٰی السَّاعَۃُ قَالَ مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائلِ)[ رواہ البخاری : کتاب الایمان باب سؤال جبریل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن نبی اکرم (ﷺ) صحابہ کرام (رض) کے پاس بیٹھے تھے۔ جبرائیل (علیہ السلام) آئے۔۔ انہوں نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔“؟ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () لَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَثَوْبُہُمَا بَیْنَہُمَا لَا یَطْوِیَانِہٖ وَلَا یَتَبَایَعَانِہٖ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ حَلَبَ لِقْحَتَہٗ لَا یَطْعَمُہٗ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ لُقْمَتَہٗ إِلٰی فِیْہٖ وَلَا یَطْعَمُہَا وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَلِیْطُ حَوْضَہٗ لَا یَسْقِیْ مِنْہٗ )[ رواہ احمد : مسند ابی ہریرۃ (صحیح) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کپڑا بیچنے اور خریدنے والا ابھی کپڑا سمیٹ نہیں سکیں گے کہ قیامت آجائے گی۔ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دوھ رہا ہوگا اور وہ اس کو پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اپنے منہ میں نہیں ڈال سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ ایک آدمی اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا وہ اس سے پانی پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ إِلَّا عَلٰی شِرَار النَّاسِ )[ رواہ مسلم : کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب قرب الساعۃ] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی معظم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ قیامت صرف برے لوگوں پر قائم ہوگی۔“ (عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ () قَالَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ)(رواه مسلم:باب فضل یوم الجمعة) ’’حضرت ابوہریر﷜ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے،جمعہ کے دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا،جمعہ کے دن انکو جنت میں داخل کیا گیا اس دن ان کو جنت سے نکالا گیا،اور قیامت بھی جمعہ کے دن برپا ہوگی۔‘‘ رحم مادر : رحم مادر کے بارے میں دوسرا شخص تو کجا جنم دینے والی مامتا کو علم نہیں ہوتا کہ بیٹا جنم دے گی یا اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوگی کیونکہ ابتدائی ایام میں بیٹی بیٹے کا قطعاً کسی کو علم نہیں ہوتا۔ جہاں تک الٹرا ساؤنڈ یا ایکسرے کا تعلق ہے اس سے اس وقت ہی معلوم ہوسکتا ہے جب مادہ منویہ لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ اس وقت لوتھڑے میں کچھ آثار پیدا ہوجاتے ہیں جس سے کافی حد تک معلوم ہوجاتا ہے کہ پیدا ہونے والابیٹا ہوگا یا بیٹی تاہم الٹرا ساؤنڈ یادیگر طریقوں سے رحم کی حالت پوری معلوم کرنا مشکل ہے بے شک میڈیکل سائنس اپنے عروج پر ہے لیکن اس کے باوجود الٹرا ساؤنڈ اور ایکسرے کے ذریعے معلوم ہونے والی رحم مادر کی کیفیت سو فیصد پر فیکٹ (perfect)معلوم نہیں ہوتی اس لیے کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ الٹرا ساؤنڈ کے رزلٹ کے خلاف نتیجہ نکلتا ہے۔ اس طرح یہ حقیقت بھی سو فیصد مسلّمہ ہے کسی مشین کے ذریعے معلوم نہیں ہو سکے گا کہ پیدا ہونے والا بچہ نیک ہوگا یا بد، غریب ہوگا یا امیر۔ خوبصورت ہوگا یا عام صورت لیے ہوئے ہوگا۔ بارش کب ہوگی : اس میں کوئی شک نہیں بارش ہونے سے پہلے ہوا کا درجہ حرارت ایک خاص ڈگری تک پہنچنا ضروری ہے جب ہوا کی کیفیت نقطہ انجماد کے قریب پہنچتی ہے تو بارش ہونے کے امکانات غالب دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کتنے واقعات ہیں کہ محکمہ موسمیات نے اپنے طور پر یقینی خبر دی کہ فلاں علاقہ میں فلاں وقت بارش ہوگی مگر وقت آنے پر بارش کا نام ونشان تک نہ تھا۔ پھر برسنے والی بارش کا اندازہ تو لگا لیا جاتا ہے کہ فلاں علاقہ میں اتنی سینٹی میٹر بارش ہوئی لیکن بارش کے قطرات شمار کرنا اور پانی کی مقدار کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا۔ ناممکن ہے اس لیے بارش کے بارے میں پوری معلومات صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کل اس کے ساتھ کیا ہوگا : انسان نے علم وہنر میں بے انتہا ترقی کی ہے اس نے دریاؤں کارخ موڑ دئیے سمندروں پر گزر گاہیں بنالیں چاند پر کمندیں ڈالیں ہر ایجاد کی گارنٹی دے ڈالی مگر اسے اپنے بارے میں معلوم نہیں کہ کل اس کے ساتھ کیا واقعات پیش آنے والے ہیں اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کل کی رات اپنے بستر پرلیٹوں گا یاقبر کی لحد میں اترجاؤں گا۔ انسان کی بے خبری اور بے بسی کا اندازہ لگائیں کہ مستقبل کے اندازے لگانے والا۔ آنے والے کل کے بارے میں نہیں جانتا اس لیے پوری نفی کے ساتھ ارشاد ہوا ہے کہ انسان نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔ موت کہاں واقع ہوگی : یہ تو معلوم ہے کہ ہر انسان کا ایک وقت مقرر ہے وقت آنے پر ہر انسان موت کے گھاٹ اترجائے گا حکیم اور ڈاکٹر کافی حد تک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس شخص کی موت فلاں بیماری کی وجہ سے ہوگی اور مریض اتنے دن تک زندہ رہ سکے گا لیکن ڈاکٹر قطعی طور پر نہیں بنا سکتے کہ اس کی موت کس دن اور کس وقت واقع ہوگی۔ لیکن آج تک نہ کسی کو معلوم ہوا اور نہ ہوگا کہ انسان کی موت کہاں واقع ہوگی اور اسے کس جگہ سپرد خاک کیا جائے گا۔ یہ بھی ایسی حقیقت ہے جسے نہ کوئی شخص پاسکا ہے اور نہ ہی پاسکے گا۔ قیامت کے آثار کے بارے میں کتاب وسنت میں کافی حد تک معلومات فراہم کردی گئی ہیں۔ بارش ہونے کے آثار بھی کافی حد تک واضح ہوجاتے ہیں۔ رحم مادر کے بارے میں بھی کسی حد تک آثار ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان تین باتوں کے بارے میں کلیتاً نفی کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ انسان کے ساتھ کل کیا ہونے والا ہے اور اس کی موت کہاں واقع ہوگی ان کے بارے میں حتمی طور پر نفی کی گئی ہے اس لیے کوئی شخص ان پانچ باتوں کے بارے میں سو فیصد آگاہی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ان کے بارے میں کامل اور اکمل علم صرف ” اللہ“ کی ذات کے پاس ہے اس لیے فرمایا کہ اس کے سوا ان کے بارے میں کوئی قطعی اور یقینی علم نہیں رکھتا۔ مسائل: 1۔ 1 قیامت، 2۔ بارش، 3 ۔رحم مادر، 4 ۔کل کیا ہوگا، 5 ۔موت کہاں واقع ہوگی۔ ان کے بارے میں قطعی علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا ہر چیز کی خبر رکھنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن: غائب صرف ” اللہ“ ہی جانتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور غائب کو جانتا ہے۔ (التوبۃ:94) 2۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل :19) 3۔ تم اپنی بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرواللہ تعالیٰ سینوں کے بھید جانتا ہے۔ (الملک :13) 4۔ اللہ تعالیٰ کے لیے برابر ہے جو انسان چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ (الرعد :10) 5۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے۔ (الحشر :22) 6۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے؟ (البقرۃ:77) 7۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ سرگوشیوں سے بھی واقف ہے؟ (التوبۃ:78) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو غیب کا علم نہیں : 1۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام :59) 2۔ آپ فرما دیں کہ غیب ” اللہ“ ہی کے پاس ہے۔ (یونس :20) 3۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب ” اللہ“ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65) 4۔ نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں۔ (ھود :31) 5۔ آپ فرما دیں میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتاہوں۔ (الانعام :50) 6۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف :188) 7۔ حضرت ابراہیم کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود :69) 8۔ حضرت لوط فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود :77) 9۔حضرت یعقوب علیہ السلام ایک طویل مدت تک یوسف علیہ السلام کے بارے میں بےخبر رہے۔(یوسف:84 تا 87) 10۔جنات غیب نہیں جانتے۔(سبا:14) 11۔اللہ ہی غیب کا جانے والا ہے۔(الجن:26) 12۔کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے۔(التوبۃ:78) 13۔قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے،وہ ہی بارش برساتا ہے،وہ ہی جانتا ہے جو ماؤں کے پیٹوں میں ہے،کوئ نفس نہیں جانتا کہ کل کیا کرنے والا ہے۔اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ اسکو موت کس سرزمین میں آئےگی اللہ سب کو جانتا ہے اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘(لقمان:34)