وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں (١) کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں (٢) یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے (٣)۔
فہم القرآن: (آیت6سے7) ربط کلام : قرآن مجید ہدایت کی کتاب ہے مگر اس کی ہدایت سے وہی شخص مستفید ہوسکتا ہے جو لغویات سے اجتناب کرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل کیا ہے لیکن لوگوں میں بے شمار ایسے لوگ ہیں۔ جو اچھائی کے مقابلہ میں برائی، نیکی کی بجائے گمراہی کے طلبگار اور پرستار بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ لوگوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو برائی کے خریدار ہوتے ہیں۔ اپنی جہالت کی بنا پر ناصرف خود گمراہ ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے ہٹانے اور گمراہ کرنے میں اپنا مال اور صلاحیتیں صرف کرتے ہیں۔ پھر عملاً یا قولاً اللہ تعالیٰ کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں ان کے لیے رسوا کردینے والا عذاب ہوگا۔ اس آیت کا پس منظر ذکر کرتے ہوئے مفسّرین نے لکھا ہے کہ نضر بن حارث نے ایران اور روم سے ایسا لٹریچر درآمد کیا جس میں فحاشی اور بے حیائی کو داستان گوئی کے انداز میں بیان کیا گیا تھا۔ اس نے مکہ معظمہ میں اسے قرآن مجید کے مقابلے میں عام کرنے کی کوشش کی تاکہ لوگ قرآن مجید کے مقابلے میں ان باتوں اور کاموں میں مصروف رہیں۔ اس کے بارے میں یہاں تک لکھا گیا ہے کہ اس نے فاحشہ عورتوں کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ وہ نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں اس کے ساتھ ہی وہ سرورگرامی کی ذات اطہر اور قرآن مجید کی مقدس آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتا اور لوگوں کے سامنے آیات ربانی کو حقیر بنا کر پیش کرتا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگوں میں ایسا بیہودہ شخص بھی ہے جو اپنا مال خرچ کرکے بے حیائی خریدتا ہے اور جہالت کی بنیاد پر لوگوں کو اللہ کے راستے سے گمراہ کرتا ہے۔ نضربن حارث خود حیرہ گیا۔ وہاں سے باشاہوں کے حالات اور رستم و اسفندیار کے قصّے سیکھے۔ آپ (ﷺ) جہاں کہیں بھی جا کراپنا پیغام سناتے، ابو لہب کی طرح پیچھا کرتے ہوئے نضربن حارث بھی وہاں پہنچ کر یہ قصّے سناتا۔ پھر لوگوں سے پوچھتا کہ آخر کس بنا پر محمد (ﷺ) کا کلام مجھ سے بہتر ہے ؟ علاوہ ازیں اس نے چند لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں۔ جب کوئی شخص رسول اللہ (ﷺ) کی طرف مائل ہونے لگتاتو وہ کسی لونڈی کو اس پر مسلّط کردیتا مقصد یہ تھا کہ لونڈی اسے کھلائے پلائے اور اس کی سوچ کا رخ موڑ دے اسی سلسہ میں یہ آیت نازل ہوئی [ سیرت ابن ہشام : جلد1] نیکی کو چھوڑ کر برائی اختیار کرنے والا شخص کتنا ہی پڑھا لکھا اور سمجھدار کیوں نہ ہو حقیقت میں وہ جاہل ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتا ہے۔ اسے ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اس شخص کا کردار پیش فرما کر ایک پورے کلچر کی نفی کی گئی ہے۔ افسوس ! مسلمان حکومتوں میں شاید کوئی حکومت اور معاشرہ ایسا ہو جو کروڑوں، اربوں ڈالربے حیائی خریدنے اور ا سے پھیلانے کے لیے صرف نہ کررہے ہوں جسے کلچر، ثقافت اور تفریح کا نام دیا گیا ہے۔ کفار کو چھوڑیں صرف مسلمان ملکوں میں نئی نسل کو اخلاقی اور عملی طور پر تباہ کرنے کے لیے سینکڑوں ٹی وی چینل چل رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں بے ہودہ رسائل چھپ رہے ہیں۔ قرآن مجید نے ” لَھْوَ الْحَدِیْثِ“ کے لیے ” اِشْتَرَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے ” اِشْتَرَ“ عربی زبان میں صرف خریدو فروخت کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی چیز کو بدلے میں لینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ” لَھْوَ“ کا لفظ بیہودہ اور بے حیائی کے لیے استعمال ہوتا ہے قرآن مجید نے بے مقصد کام اور بات کو بھی ” لَھْوَ“ قرار دیا ہے۔ جو شخص لغویات کا عادی ہوجائے اس کے لیے نیکی کی بات سننا بوجھ بن جاتا ہے اور بیہودہ کاموں پر خوش ہوتا ہے یہی حالت اہل مکہ کی تھی انہیں قرآن مجید کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ غرور اور تعصب کی بناء پر یوں پیٹھ پھیرجاتے جیسا کہ انہوں نے قرآن سنا ہی نہیں یا ان کے کانوں میں سکہ پڑچکا ہے ایسے لوگوں کے لیے صرف یہی پیغام ہے کہ انہیں اذّیت ناک عذاب کی خوشخبری سنائی جائے۔ لَھْوَ الْحَدِیْثِ: (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ قَالَ قاَلَ النَّبِیُّ (ﷺ) إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی بَعَثَنِیْ رَحْمْۃً لِّلْعٰالَمِیْنَ وَہُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ وَأَمَرَنِیْ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ بِمَحْقِ الْمَعَازِفِ وَالْمَزَامِیْرِ وَالاأَوْثَانِ وَالصُّلْبِ وَأَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ)[ رواہ احمد:باب مسند ابی امامہ(صحیح)] ” سیّدناابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے اور میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجوں گاجوں، ساز و مضراب، بتوں، صلیبوں اور جاہلیّت کے کاموں کو ختم کردوں۔“ (أَبُو مَالِک الأَشْعَرِیُ وَاللَّہِ مَا کَذَبَنِیْ سَمِعَ النَّبِیَ (ﷺ) یَقُوْلُ لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْخِزَّ وَالْحَرِیرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ)[ رواہ البخاری : کتاب الاشربۃ: باب مَا جَاء فیمَنْ یَسْتَحِلُّ الْخَمْرَ وَیُسَمِّیہِ بِغَیْرِ اسْمِہِ] ” ابومالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور معازف یعنی آلات موسیقی اور گانے بجانے کو جائز کہیں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد(صحیح)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے اسلام کی اچھائی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں کو چھوڑ دے۔“ مسائل: 1۔ جو لوگ اللہ کی آیات سے مذاق کرتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ 2۔ جب کفار کو قرآن کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ اس طرح دکھائی دیتے ہیں جیسے انہوں نے سنا ہی نہیں۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید سے اعراض کرنے کا نتیجہ : 1۔ قرآن سے اعراض کرنے والے ظالم اور گمراہ ہیں۔ (الکہف :57) 2۔ قرآن سے منہ پھیرنے والوں کی سزا۔ (السجدۃ:22) 3۔ قرآن سے اعراض کرنے والے قیامت کے دن اندھے ہوں گے۔ (طٰہٰ: 124، 125) 4۔ اعراض کرنے والوں کو اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ (طٰہٰ: 100، 101) 5۔ قرآن کا انکار برے لوگ ہی کیا کرتے ہیں۔ (البقرۃ:99) 6۔ قرآن سے اعراض کرنے والوں کو آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل :75)