سورة لقمان - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ لقمان۔ سورۃ نمبر ٣١۔ تعداد آیات ٣٤)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ لقمان کا تعارف: یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کا نام لقمان ہے میں نام آیت 12اور 13میں آیا ہے اس کے چار رکوع اور چونتیس آیات ہیں۔ ربط سورة : سورۃ الروم کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اللہ تعالی نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے قرآن مجید میں ہرقسم کی مثال بیان فرمائی ہے لیکن اس کے باوجود کفار قرآن کو من جانب اللہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ، اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی ہٹ دھری کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر ثبت کر دی ہے ایسے لوگوں کے رویے کے معاملے میں جذباتی ہونے کی بجائے صبر سے کام لینا چاہیے ۔سورت لقمان کا آغاز اس فرمان سے ہوا کہ قرآن مجید پر حکمت کتاب ہے اور یہ نیک لوگوں کے لیے رحمت اور ہدایت کا سر چشمہ ہے ، نیک لوگوں کے بنیادی اوصاف یہ ہیں کہ وہ نماز قائم کرتے ،زکوۃ ادا کرتے ہیں اور ان کا آخرت پر مکمل یقین ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جب انہیں اپنے کیے کا پورا، پور احساب دینا ہوگا۔ اس سورۃ کا مرکزی مضمون حضرت لقمان کی وصیتوں پر مشتمل ہے سورت کی ابتداء میں قرآن مجید کو کتاب حکیم کہا گیا ہے جس میں لطیف اشارہ ہے کہ اس سورۃ میں جس شخص کی وصیتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنے دور کاعظیم دانشور تھا۔ کتاب الحکیم کے دومعانی ہیں پر حکمت کتاب اور ایسی کتاب جس کے ارشادات محکم اور فیصلہ کن ہیں ۔ اللہ تعالی کی طرف سے قرآن حکیم ہدایت اور اس کی رحمت کا سر چشمہ ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو نیک بننا چاہتے ہیں نیک لوگوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ توحید ورسالت پر ایمان رکھنے کے ساتھ نماز قائم کرتے ،زکوۃ ادا کرتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔اس سورۃ کے پہلے رکوع میں بتلایا ہے جو فحاشی اور بے حیائی کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتا ہے اسے ذلیل کر دینے والا عذاب ہو گا۔ اس کے مقابلے جولوگ ایمان لانے کے بعد صالح اعمال کر یں گے ان کے لیے جنت نعیم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ ان کے ساتھ اللہ تعالی کا وعدہ ہے جو اپنا ہر وعدہ پورا کر نے پر قدرت رکھتا ہے لہذا وہ اپنے وعدے پورے کرے گا اس کی قدرت کا اندازہ کر یں کہ اس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے ٹھہرایا ہوا ہے اور زمین میں پہاڑ گاڑ دیے ہیں پھر اس زمین پر ہرقسم کے چو پاؤں کو پھیلا دیا ہے وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور اس کے ساتھ نباتات پیدا کرتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالی کی مخلوق ہیں اس کے بغیر کوئی بھی کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتا ۔ لیکن اس کے باوجود مشرک ’’اللہ کو ایک الہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ کھلی گمراہی میں بھٹک رہے ہیں ۔ سورۃ کے دوسرے رکوع میں حضرت لقمان کی گیارہ وصیتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1۔ انسان کو اللہ تعالی کا شکر ادا کر نا چاہیے اس کا فائدہ اسے ہی ہوگا۔ 2 ۔ جس نے اللہ تعالی کی ناشکری کی اللہ تعالی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ وہ غنی اور لائق حمد ہے ۔ 3۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو یہ بھی وصیت کی کہ بیٹا اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ 4 ۔ میرے بیٹا! جو کچھ زمین و آسمانوں اور صحرا میں موجود ہے وہ اللہ سے پوشیدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالی نہایت ہی بار یک بین اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ 5۔ میرے بیٹا! اللہ تعالی رائی کے دانے کو بھی جانتا ہے ۔ 6۔ بیٹا! نماز قائم کرو ۔ 7۔ بیٹا! لوگوں کو نیکی کا حکم دو اور برائی سے بچے رہو ۔ 8۔ بیٹا! مصیبت میں صبر کرو کیونکہ مصیبت میں صبر کر ناعظیم کاموں میں سے ایک کام ہے ۔ 9۔ بیٹا تکبر کی وجہ سے لوگوں سے منہ نہ پھیرو اور نہ ہی زمین پر اکڑ کر چلو کیونکہ اللہ تعالی کوفخر اور تکبر کرنے والاشخص پسند نہیں ہے ۔ 10۔ بیٹا! چلنے میں میانہ روی اختیار کرو۔ 11 ۔ بیٹا! اپنی آواز کو بلا وجہ بلند نہ کرنا کیونکہ سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔ تیسرے رکوع میں اللہ تعالی نے زمین و آسمان کی تسخیر اور تخلیق کا حوالہ دے کر ارشادفرمایا ہے کہ اگر درختوں کی قلمیں بنالی جا ئیں اور سات سمند رسیاہی میں تبدیل کر دیئے جائیں تب بھی اللہ کی تعریفات ختم نہیں ہوسکتیں ،سورت کے آخر میں لوگوں کو سمجھایا ہے کہ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کے دن ماں باپ اپنی اولادکو اور اولاداپنے ماں باپ کو کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے اور یادرکھو کہ پانچ چیزوں کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہے جوسب کچھ جاننے والا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ 1 ۔ اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب بر پا ہوگی ۔ 2۔ اللہ تعالی ہی بارش برسانے والا ہے۔ 3۔ اللہ ہی جانتا ہے جو کہ کچھ ماؤں کے رحموں میں ہوتا ہے ۔ 4۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس نے کل کیا کرنا ہے۔ 5 ۔ کسی نفس کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کہاں اور کب واقع ہوگی ۔