وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَلَئِن جِئْتَهُم بِآيَةٍ لَّيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُبْطِلُونَ
بیشک ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے سامنے کل مثالیں بیان کردی ہیں (١) آپ ان کے پاس کوئی بھی نشانی لائیں (٢) یہ کافر تو یہی کہیں گے کہ تم (بیہودہ گو) بالکل جھوٹے ہو۔ (٣)
فہم القرآن: (آیت58سے60) ربط کلام : مجرموں کی معذرتیں اس لیے قبول نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دین اور اپنی توحید سمجھانے کے لیے قرآن مجید میں ہر طرح کی مثالیں دے کر انہیں سمجھایا ہے۔ اس فرمان کے دو مطالب ہیں ایک طرف قبل از وقت مجرموں کو بتایا جا رہا ہے کہ اگر تم نے کفر و شرک پر تکرار جاری رکھا تو یاد رکھو وہ دن دور نہیں جب تم اپنے کیے پر معذرتیں کروگے لیکن تمہاری معذرتوں کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جائے گالہٰذا سنبھلنا چاہتے ہو تو آج موقعہ ہے سنبھل جاؤ ورنہ پچھتاوے کے سو اکچھ نہ ہوگا۔ دوسری طرف نبی کریم (ﷺ) کو تسلّی دی گئی ہے کہ اگر آپ ان کے سامنے مزید دلائل اور معجزے پیش کریں تو پھر بھی یہ لوگ آپ پر جھوٹ کا الزام لگائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ حقیقت کا علم نہیں جاننا چاہتے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہرثبت کردیتا ہے جس وجہ سے ان کا ہدایت قبول کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے وہ انہیں ان کے کیے کی ضرور سزا دے گا ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ آپ کو ہلکا کردیں اس لیے آپ کو صبر کرنا چاہیے۔ ﴿ وَلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ﴾ کا دوسرا معنٰی یہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ لوگ آپ کی ذات اور کام کو ہلکا بنانا چاہتے ہیں جس میں یہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یعنی دشمن تم کو ایسا کمزور نہ پائیں کہ ان کے شور و غوغا سے تم دب جاؤ یا ان کی بہتان و افتراء کی مہم سے مرعوب ہوجاؤیا ان کی پھبتیوں اور طعنوں اور تضحیک و استہزاء سے تم پست ہمّت ہوجاؤ یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم وستم سے تم ڈرجاؤ یا ان کے دیے ہوئے لالچوں سے تم پھسل جاؤ یا قومی مفاد کے نام پر جواپیلیں وہ تم سے کررہے ہیں ان کی بنا پر تم ان کے ساتھ مصالحت کرلینے پر اتر آؤ۔ اس کی بجائے وہ تم کو اپنے مقصد کے شعور میں اتنا ہوشمند اور اپنے یقین و ایمان میں اتنا پختہ اور اس عزم میں اتنا راسخ اور اپنے کیرکٹر میں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایا جاسکے، نہ کسی قیمت پر تمہیں خریدا جاسکے، نہ کسی فریب سے تم کو پھسلایا جاسکے، نہ کوئی خطرہ یا نقصان یا تکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹا سکے اور نہ دین میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جاسکے۔ یہ سارا مضمون اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلاغت نے اس ذرا سے فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ یہ بےیقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں۔ اب اس بات کا ثبوت تاریخ کی بے لاگ شہادت دیتی ہے کہ نبی (ﷺ) دنیا پر ویسے ہی بھاری ثابت ہوئے جیسا کہ اللہ اپنے آخری نبی (ﷺ) کو بھری بھرکم دیکھنا چاہتا تھا۔ آپ (ﷺ) سے جس نے جس میدان میں بھی زور آزمائی کی۔ اس نے اسی میدان میں مات کھائی اور آخر اس شخصیت عظمیٰ نے وہ انقلاب برپا کردکھایا جسے روکنے کے لیے عرب کے کفر و شرک نے اپنی ساری طاقت صرف کردی اور اپنے سارے حربے استعمال کرڈالے۔ (تفہیم القرآن جلد3) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دین اور اپنی توحید سمجھانے کے لیے کئی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ 2۔ قیامت کے منکروں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ گمراہی کی مہر لگا دیتا ہے۔ 3۔ قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: نبی اکرم (ﷺ) کو صبر کرنے کی تلقین : 1۔ نبی (ﷺ) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج :5) 2۔ اگر یہ لوگ آپ سے منہ موڑ لیں تو آپ ” اللہ“ پر بھروسہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ ( التوبہ :129) 3۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔ (الدھر :24) 4۔ تکلیف پر صبر کیجیے یقیناً یہ بڑے کاموں میں سے ہے۔ (لقمان :17) 5۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ( الحج :55) 6۔ اے نبی (ﷺ) ! کفار کی باتوں پر صبر کیجیے اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہیں۔ (طٰہٰ:130)