فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
پس قرابت دار کو مسکین کو مسافر کو ہر ایک کو اس کا حق دیجئے (١) یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنا چاہتے ہوں (٢) ایسے لوگ نجات پانے والے ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : رزق کی کمی، بیشی کا سبب بیان کرنے کے بعد مال داروں کو مال کے معاملہ میں ان کے فرض سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید بات سے بات نکال کر انسان کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ پچھلی آیت میں رزق کی کشادگی اور تنگی کا ذکر ہوا ہے۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے رزق کی کشادگی سے نوازے اس کا فرض بنتا ہے کہ اللہ کے دئیے ہوئے مال سے لوگوں پر خرچ کرے یہ اس کا غریبوں پر احسان نہیں بلکہ یہ غریبوں کا حق ہے مال دار جو اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال سے لٹاتا ہے۔ مال دار اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خرچ کرے جس کی ترتیب یہ بیان فرمائی ہے کہ پہلے قریبی لوگوں سے ابتدا کرے۔ اس کے ساتھ حکم دیا کہ اللہ کی رضا اور اس کے حکم کے مطابق خرچ ہونا چاہیے یقیناً ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو کسی پر احسان جتلانے یا نمودونمائش کے لیے خرچ نہیں کرتے بلکہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہیں یہی لوگ فلاح پائیں گے۔ دنیا میں ان کے لیے غریبوں کی دعائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اس سے مال میں برکت اور معاشرہ میں اخوت وہمدردی پیدا ہوتی ہے اور آخرت میں جنت عطا ہوگی۔ (عَنْ اَبِیْ الدَرْدَآءِ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ اِبْغُوْنِیْ الضُّعَفَآءَ فَاِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَائِکُمْ) [ رواہ ابوداؤ: باب فی الانتصار برذل الخیل والضعفۃ(صحیح)] ” ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا مجھے بھی اپنے کمزوروں میں شمار کرو کیونکہ تمہاری مدد اور تمہیں رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) السَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمِلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَائِمِ اللَّیْلَ الصَّائِمِ النَّھَارَ) [ رواہ البخاری : کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الأھل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بیوہ اور مسکین کے ساتھ تعاون کرنے والا۔ اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ صدقہ کرنے کی ترتیب : ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ابو طلحہ (رض) انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں والے تھے ان باغات میں بیرحاء نامی باغ ان کا سب سے بہترین مال تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا نبی (ﷺ) اس میں جاتے اور وہاں سے پانی پیا کرتے تھے جب آیت﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾نازل ہوئی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) رسول کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں : اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو کبھی نیکی تک نہ پہنچ سکو گے۔ یقینًامیرے پاس ” بیرحاء“ کا باغ ہے جو میری پوری جائیداد میں میرے نزدیک قیمتی اور عزیز ہے میں اس کے بدلے اللہ کے ہاں نیکی اور آخرت کے خزانے کا خواہشمند ہوں لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں استعمال کریں۔ آپ (ﷺ) نے اس جذبہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا : یہ مال بڑا نفع بخش ہے یہ مال بڑا فائدہ مند ہے جو تم نے کہا میں نے سن لیا۔ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے باغ اپنے چچا زاد بھائیوں اور عزیزوں میں تقسیم کردیا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب ﴿ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّون ﴾] مسائل: 1۔ اللہ کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرنا چاہیے۔ 2۔ صدقہ کرتے وقت قرآن کی ترتیب کا خیال رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: صدقہ کرنے کا حکم اور اس کا اجر : 1۔ اللہ کو قرض حسنہ دینے کا حکم۔ (المزمل :20) 2۔ اللہ اسے سات سو گناہ سے بھی زیادہ بڑھائے گا۔ (البقرہ :261) 3۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ (البقرۃ:265) 4۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید :11) 5۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن :17) 6۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف :88) 7۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبۃ:99) 8۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران :134) 9۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا :39) 10۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد :22) 11۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ:261)