فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں (١) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (٢) اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں (٣) یہی سیدھا دین ہے (٤) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (٥)
فہم القرآن: (آیت30سے31) ربط کلام : اس سے پہلے ایک مثال کے ذریعے انسان کی فطرت کو بیدار کرتے ہوئے شرک سے نفرت دلائی اور عقیدہ توحید سمجھایا۔ اس آیت میں یہ باور کروایا ہے کہ توحید فطرت کی آواز ہے اور انسان کو اپنی حقیقی فطرت پر قائم رہنا چاہیے۔ حکم ہوا کہ اپنے آپ کو دین حنیف پر قائم رکھیں یہی فطرت ہے۔ اور اسی فطرت پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے۔” اللہ“ سے ڈرتے ہوئے اسی کی طرف متوجہ رہو اور نماز قائم کرو، اور مشرکین میں نہ ہوجاؤ۔ اہل علم نے ان الفاظ کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ 1 ۔مشرکین میں نہ ہوجاؤ کا تعلق نماز سے نہیں دونوں حکم الگ، الگ ہیں۔2 ۔نماز قائم کرو یعنی اخلاص سے نماز پڑھو اور ریاکاری سے بچو کیونکہ ریا کاری کرنا شرک ہے (لا تکونوامن المشرکین غیراللہ فی الصلاۃ والعبادۃ،ای لاتصلوالغیر اللہ ولاتعبدوا من دونہ)(تفسیر ماتریدی) ’’نماز اوردیگر تمام تر عبادات صرف اللہ کی ذات کے لیے خاص ہیں ان میں غیر اللہ کو شامل کرکے مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘ 3۔ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ان مشرکین میں نہ ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا عملی ثبوت نماز ہے جس کے بارے میں پہلے پارے میں ارشاد ہوا کہ ” نماز قائم کرنا مشکل کام ہے سوائے ان لوگوں کے ہے جو ڈرنے والے ہیں“ (البقرہ :45) ” اَلدِّیْنُ“ سے پہلی مراد اللہ کی توحید ہے اس کی اشاعت اور تقاضے پورے کرنے پر پوری توجہ مرکوز رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر لوگوں کو پیدا کیا ہے اگر عقیدہ توحید ٹھیک ہوا۔ اور اس کے تقاضے پورے ہوئے تو سارے کا سارا دین اور نظام ٹھیک رہے گا ” اَلدِّیْنُ“ سے دوسری مراد پورا دین ہے یعنی پورے کے پورے دین پر قائم رہیں اور اسے قائم کرو۔ دین ٹھوس دلائل پر قائم ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں یہ ہر اعتبار سے کامل اور اکمل ہے دین کی بنیاد توحید ہے۔ اس میں ذرا سی کھوٹ پیدا ہوگئی تو سارے کا سارا دین مسترد کردیا جائے گا۔ اس کا اوّلین تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اسی کی اطاعت کا پورا خیال رکھیں۔ جس کا دوسرا تقاضا ہے کہ نماز قائم کی جائے اور تیسرا تقاضا زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا ہے۔ اور کسی صورت بھی عقیدہ وعمل میں مشرکوں کے ساتھ نہیں ملنا۔ بعض مفکرین کا خیال ہے کہ انسان نے رفتہ رفتہ اپنے رب کو پہچانا ہے حالانکہ قرآن مجید کا واضح ارشاد ہے کہ ” توحید انسانی فطرت کی آواز ہے اور اسی پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے“ (الاعراف : 172تا174) (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ أَخَذَ اللّٰہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہٖ کَالذُّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قُبُلًا قَالَ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلٰی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ )[ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عباس] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرفہ کے مقام پر آدم (علیہ السلام) کی پشت سے اس کی تمام اولاد نکالی۔ انھیں اپنے سامنے چیونٹیوں کی طرح پھیلایا پھر ان سے کلام فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ کہیں قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے یا تم کہو کہ شرک تو ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے۔ کیا تو ہمیں باطل کام کرنے والوں کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ أَوْ یُنَصِّرَانِہٖ أَوْ یُمَجِّسَانِہٖ کَمَثَلِ الْبَہِیمَۃِ تُنْتَجُ الْبَہِیمَۃَ ہَلْ تَرٰی فیہَا جَدْعَاءَ) [ رواہ البخاری : باب ماقیل فی أولاد المشرکین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا ہر نو مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ جس طرح جانور کسی کو جنم دیتا ہے تو کیا تم ان میں کسی کو مقطوع الاعضا پاتے ہو؟“ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ جنت والے جنت اور جہنم والے جہنم میں داخل ہوجائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ہر اس آدمی کو آگ سے نکال لیا جائے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے۔ فرشتے آگ سے لوگوں کو نکالیں گے جو جل کر سیاہ ہوچکے ہوں گے۔ انہیں نہر حیات میں غسل دیا جائے گا وہ ایسے نمو پائیں گے جس طرح سیلاب کے کنارے دانہ اگتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] نماز کی فضیلت : ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ۔۔] ” عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) بَعَثَ مُعَاذًا (رض) إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اُدْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِیْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا کہ یمن والوں کو سمجھاؤ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی بات مان لیں تو انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔“ مسائل: 1۔ ہر حال میں اپنے آپ کو عقیدہ توحید پر قائم رکھیں۔ 2۔ ہر حال میں دین حنیف پر قائم رہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دین حنیف پر پیدا کیا ہے۔ 4۔ اللہ کے دین میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ 5۔ دین حنیف ٹھوس دلائل پر قائم ہے۔ 6۔ لوگوں کی اکثریت عقیدہ توحید اور دین حنیف سے لابلد ہے۔ 7۔ ” اللہ“ سے ڈرتے رہیں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں 8۔ مسلمان کو مشرکوں سے نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: ” اَلدِّیْنُ“ کی اہمیت اور اس کے معانی: 1۔ دین کا معنٰی قانون ہے۔ (یوسف :76) 2 ۔ عبادت کا نام دین ہے۔ (الزمر :3) 3۔ دین کا معنٰی فرمانبرداری۔ (المومن :14) 4۔ الدین بمعنٰی نظام حکومت۔ (المومن :25) 5۔ الدین بمعنٰی دین۔ (التوبۃ:29) 6۔ الدین کا معنٰی تابع بنانا اور تابع ہونا ہے۔ (البقرۃ:131) 7۔ دین سے مرادجزاو سزا کا دن ہے۔ (الفاتحۃ:4) 8۔ دین کا معنٰی شریعت ہے۔ (النساء :125) 9۔ دین کا معنٰی روزِقیامت۔ (الذٰریات : 12، الانفطار : 15، 17، 18)