ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی ہے، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ (١) اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کرتے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت28سے29) ربط کلام : پہلی آیات میں توحید کے ایسے دلائل دیے گئے ہیں جس سے ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان چیزوں سے مستفید ہوتا ہے۔ اب انسان کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے اس کی نفسانی کیفیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اے لوگو ! تمہارے لیے تمہارے نفس کی ایک کیفیت پیش کی جاتی ہے اس پر توجہ کرو اور اسے سمجھنے کے لیے اپنی عقل سے کام لو۔ وہ کیفیت اور مثال یہ ہے کہ جن غلاموں کے تم مالک ہو اور جو رزق اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں کیا تم اپنے زرخرید غلاموں کو برابر کے شریک کرنے کے لیے تیار ہو؟ تمہارے نفسوس کی کیفیت تو یہ ہے کہ تم اپنے مال میں غلاموں کی شراکت کے تصور سے اس طرح کانپتے ہو جس طرح تم پہلے سے وراثت میں شریک رشتہ داروں سے ڈرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں خود داری اور آزادی پیدا کی ہے جس بناء پر انسان زیادہ سے زیادہ اختیارات چاہتا اور اپنے معاملات میں دوسروں کی شراکت اور عمل داری قبول نہیں کرتا۔ یہ تو انسان کی طبیعت کی کمزوری اور ضرورت ہے کہ اسے چاروناچار اپنے معاملات میں دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے۔ اگر انسان تمام معاملات کو بلا شرکت غیرے چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے معاملات میں کوئی دخل اندازی کرے۔ اس کی طبیعت اور کیفیت کا حوالہ دینے کے بعد اسے احساس دلایا گیا ہے کہ اے انسان تو کمزور اور ضرورت مند ہونے کے باوجود اپنے محدود اور عارضی اختیارات میں کسی کی شرکت پسند نہیں کرتا۔ غور کر ! کہ اللہ تعالیٰ خالق، مالک اور بلاشرکت غیرے مخلوق کا بادشاہ ہے وہ کس طرح دوسرے کو گوارا کرسکتا ہے ؟ یہ مثال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگو! اس مثال پر انصاف کے ساتھ غور کرو کہ جن کو تم اللہ کے شریک بناتے ہو وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے شریک ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں کس طرح گوارا کرسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ مثال اور دلائل دے کر اپنی توحید سمجھاتا ہے تاکہ لوگ عقل وفکر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکن جو لوگ سمجھ سے کام نہیں لیتے وہ بغیر حقیقت جانے اپنے تصورّات، خواہشات اور مفادات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ جان بوجھ کر گمراہ ہوچکے ہیں اور عقل سے کام نہیں لیتے اگر یہ عقل سلیم سے کام لیں تو کبھی شرک کا ارتکاب نہ کریں۔ لیکن یہ حقیقت جاننے کے باوجود اسے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ جس وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نہیں دیتا۔ مشرکین کا عقیدہ ہے کہ یہ بزرگ قیامت کے دن بھی ہماری مدد کریں گے حالانکہ قیامت کے دن ان کی کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا۔ یہ بات فہم القرآن: کے کئی مقامات پر عرض ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کو گمراہ کرنے کا صرف اتنا مفہوم ہے کہ جو شخص گمراہی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی رسّی دراز کردیتا ہے جس وجہ سے وہ گمراہی میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ ایسے گمراہ کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ مسائل: 1۔ ہر انسان طبعی طور پر اپنے معاملات میں کسی کی شراکت اور دخل اندازی پسند نہیں کرتا۔ 2۔ انسان عقل سلیم کے ساتھ سوچے تو کبھی شرک نہ کرے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ عقیدہ توحید اور حقائق کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھنے کی کوشش کریں۔ 4۔ مشرک اور ظالم اپنی جہالت کی بنیاد پر اپنی خواہشات اور تصورّات کی پیروی کرتے ہیں۔ 5۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔