إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ
یقین مانو میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیغام اور عقیدہ توحید تھا۔ یہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ تمام انبیاء رشتۂ نبوت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں بالخصوص بنی اسرائیل کے انبیاء کی اکثریت نسب کے اعتبار سے بھی آپس میں رشتہ دار تھی اور سب انبیاء کی دعوت کے بنیادی اصول بھی ایک ہی ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صاحب انجیل ہونے کے باوجود تورات سے اپنی تائید میں اکثر حوالہ پیش کیا کرتے تھے۔ واضح اور ٹھوس دلائل دینے اور بے مثال معجزات دکھانے کے بعد جناب عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ایک ہی دعوت دیا کرتے تھے۔ اس اللہ کی عبادت کرو جو تمہارا اور میرا رب ہے۔ یاد رہے کہ وہ میرا اور تمہارا باپ نہیں کہتے تھے جس طرح انجیل میں ان کی طرف بار بار باپ کے الفاظ منسوب کیے گئے ہیں۔ حالانکہ وہ میرا اور تمہارے رب کے مقدس اور واضح الفاظ استعمال فرماتے تاکہ معجزے دیکھ کر لوگوں کو ان کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ پید اہو۔ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور صرف اسی ایک کی عبادت کرنا صراط مستقیم ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا فرمان : پرانے عہد نامہ کی کتاب استثناء میں مرقوم، قوم اسرائیل کا مشہور کلمہ شمع (Shama) (=عربی : اسمع) اپنے مفہوم کے اعتبار سے اسلام کے کلمۂ شہادت اور قرآن کی سورۃ اخلاص کی پہلی آیت سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ خصوصًا اپنے عربی و عبرانی متن میں اس کے الفاظ مبارک اس آیت کی باز گشت ہیں ملاحظہ فرمائیے : عربی : اسمع یا اسرائیل إن الرب الھنارب واحد۔ عبرانی :Shama Yisrael Adonoielohem. Adonoiehod شمع یاسرائیل ادونائی الوھیم ادونائی احاد۔ [ بائبل عبرانی واردو، کتاب استثناء ٦: ٤۔ الکتاب المقدس عربی 0ط۔ بیروت 1899ء) پرانے اور نئے عہد نامہ کی وضاحت کے لیے دیکھئے باب ہفتم۔] ” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے۔“ کتاب استثناء میں دوسری جگہ ہے : ” خدا وند ہی خدا ہے اور اس کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں۔“ [ استثناء : 4، 35] نیز فرمایا : ” میرے آگے اور معبودوں کو نہ ماننا۔“ [ استثناء : 5، 7] پرانے عہد نامہ کی کتاب میں مذکور ہے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی دعا میں یہ الفاظ موجود ہیں : ” تو ہی واحد خدا ہے۔“ [ زبور :86: 10] عہد نامہ قدیم میں ایک اور جگہ لکھا ہے : ” مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہے اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا۔۔ خدا وند فرماتا ہے میں ہی خدا ہوں۔“ [ یسعیاہ :43: 10، 12] نیز فرمایا : ” میں خدا وند سب کا خالق ہوں، میں ہی اکیلا آسمان کو تاننے اور زمین کو بچھانے والا ہوں، کون میرا شریک ہے۔“ [ یسعیاہ : 44: 24] برناباس۔ باب 11میں ہے : ” تو احمق ہے۔ تو اس خدا کی عبادت کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے اور وہی تجھے صحت عطا کرے گا کیونکہ میں ویسا ہی ایک انسان ہوں جیسا تو ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ سب کا رب ہے لہٰذا صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ کی عبادت کرنا ہی صراط مستقیم ہے۔ تفسیر بالقرآن : تمام انبیاء کی دعوت : 1۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔ (الانبیاء :25) 2۔ نوح (علیہ السلام) کا فرمان کہ اللہ کی عبادت کرو۔ (ھود :26) 3۔ یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (یوسف :40) 4۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ (المائدۃ:72) 5۔ ھود (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف :65) 6۔ صالح (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف :73) 7۔ شعیب (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (الاعراف :85) 8۔ نبی (ﷺ) نے بھی اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (آل عمران :64)