وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ کا وعدہ ہے، (١) اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
فہم القرآن: (آیت6سے7) ربط کلام : رومیّوں کا غالب آنا اور مسلمانوں کا کامیاب ہونا یقینی بات ہے کیونکہ یہ ” اللہ“ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ وعدہ سے مراد ایک تو یہ وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے مکہ معظمہ میں مسلمانوں سے فرمایا کہ رومی غالب اور فارسی مغلوب ہوں گے جس سے مسلمانوں کو خوشی ہوگی۔ رومیوں کا فتح یاب ہونا اور مسلمانوں کا مشرکین پر غالب آنا بظاہر اس قدر ناممکن تھا کہ اس پر یقین کرنا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری کے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے مسلمانوں کے ساتھ ” وَعَدَہٗ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تاکہ کمزور اور مظلوم مسلمانوں کو یقین اور اطمینان ہوجائے کہ اب مشکلات کا آسانیوں میں تبدیل ہونا یقینی ہوچکا ہے۔ رومیوں اور مسلمانوں کے حالات اس قدر ناگفتہ بہ تھے کہ لوگوں کو یقین آنا مشکل تھا اس لیے ارشاد فرمایا کہ اکثر لوگ اپنے محدود علم کی وجہ سے حقائق کو نہیں سمجھتے اور لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کے ظاہری اسباب پر یقین رکھتے ہیں اور ان سے مرعوب ہوتے یا ان پر فریفتہ ہوجاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ آخرت سے لا پرواہ ہوتے ہیں۔ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ ظاہری اسباب پر توجہ رکھتا ہے اور اسی کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرتا ہے اس وجہ سے وہ سینکڑوں حقائق سے تغافل اختیار کرتا ہے۔ لیکن عقل مند شخص وہ ہے جو دنیا میں رہ کر آخرت اور حقائق پر نظر رکھے۔ ” وَعَدَہٗ“ سے مراد آخرت کا وعدہ بھی ہے۔ تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ دنیا کی کامیابی اور ناکامی ایک عارضی چیز ہے اصل تو آخرت ہے۔ جس کی کامیابی ہمیشہ کی کامیابی ہے جو وہاں ناکام ہوا وہ ہمیشہ کے لیے ناکام اور نقصان پائے گا۔ وہاں فاتح اور مفتوح، ظالم اور مظلوم، نیک اور بد کا حساب ہوگا۔ اس سے غافل رہنے کی بجائے ہر انسان کو اس کی تیاری کرنی چاہیے۔ (عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا وَتَمَنَّی عَلَی اللَّہِ قَالَ ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ) [ رواہ الترمذی : باب الکیس من دان نفسہ] ” حضرت شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے وہ نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا دانا وہ ہے جس نے اپنے آپ کو عقل مند بنالیا اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کیے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا لیا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ سے امید رکھے ہوئے ہے۔“ رومیوں کی کامیابی اور بدر میں مسلمانوں کی عظیم فتح : مستند سیرت نگار اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ 624ء کو جس دن بدر میں مسلمان فتح یاب ہوئے اسی دن یا اسی سال رومیوں نے فارس پر غلبہ حاصل کیا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ 2۔ انسان دنیا کی زیب وزینت پر فریفتہ ہو کر آخرت کی جوابدہی سے تغافل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور وعدہ سچا ہوتا ہے : 1۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ حاکموں کا حاکم ہے۔ (ھود :45) 2۔ اللہ کا فرمان سچ ہے۔ (الاحزاب :4) 3۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (القصص :13) 4۔ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ (الروم :6) 5۔ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بات کرنے میں کون زیادہ سچا ہوسکتا ہے ؟ (النساء :122) 6۔ خبردار اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یونس :55) 7۔ صبر کرو اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (الروم :60) 8۔ قیامت کے دن شیطان کہے گا یقیناً اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا (ابراہیم :22) 9۔ وہ کہیں گے پاک ہے ہمارا رب یقیناً اس کا وعدہ پورا ہوا۔ (بنی اسرائیل :108) 10۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھو کے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان :33) 11۔ اللہ نے تمہارے ساتھ اپناوعدہ سچا کر دکھایاجب تم کفار کو اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے۔ (آل عمراٰن :152) 12۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں مبتلانہ کرے۔ (فاطر :5)