سورة الروم - آیت 1

لم

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

الم

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت1سے5) سورۃ العنکبوت کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے راستے ہموار کردیتا ہے جو دنیا کے لیے کوشش کرے گا وہ اپنا مقدر پا لے گا۔ اگر آخرت کے لیے کوشاں ہوگا تو آخرت میں اپنا حصہ پائے گا۔ اب اس کا ایک حوالہ دے کر مسلمانوں کو روشن مستقبل کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ دنیا میں ” اللہ“ کی مدد کی ایک عظیم مثال ملاحظہ فرمائیں کہ ایک وقت تھا کہ جب ایرانیوں کے مقابلے میں رومی شکست فاش سے دوچار ہوئے اور مسلمان کفار کے ہاتھوں مار کھا رہے تھے، ان نازک ترین اور ناقابل یقین حالات میں اعلان ہوتا ہے کہ عنقریب رومی غالب ہونگے۔ شکست میں بھی ” اللہ“ کا حکم کار فرما تھا اور فتح بھی ” اللہ“ کے حکم سے ہوگی ” اللہ“ کی مدد سے اس دن مومن خوش ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے کیونکہ وہ ہر اعتبار سے غالب اور مہربان ہے۔ وہ جس کو زیر کرنا چاہے وہ دم نہیں مار سکتا جس پر رحم کرنا چاہے وہ زیر نہیں ہوسکتا وہی کامیابی اور شکست دینے پر اختیار رکھتا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) کی نبوت سے آٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ روم میں محلاتی سازشوں کی وجہ سے ایک خونی انقلاب برپا ہوا۔ جس میں روم کے بادشاہ مارلیس اور اس کے خاندان کو قتل کردیا گیا۔ اس کے بعد فوکاس نامی سردار سلطنت روم پر قابض ہوا، حالات کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے بادشاہ خسرو پرویز نے روم پر حملہ کیا اور یہ جواز بنایا کہ روم کا بادشاہ ماریس میرا محسن تھا، کیونکہ ایران میں اقتدار سنبھالنے کے لیے اس نے خسرو پرویز کی مدد کی تھی۔ اس بات کو بہانہ بناتے ہوئے خسرو نے مسلسل پیش قدمی کر کے روم کا بیشتر علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا یہاں تک کہ روم کے بادشاہ کو اپنی جان بچانی بھی مشکل ہوگئی۔ دوسری طرف حجاز کے مرکز مکہ معظمہ میں عقیدہ توحید کی بنیاد پر زبردست کشمکش برپا تھی۔ اس اثناء میں مسلمانوں کو مجبور کردیا گیا کہ وہ مکہ سے نکل جائیں۔ حالات کی مجبوری کی وجہ سے کچھ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی جو روم کے زیر اثر عیسائی حکومت تھی۔ اس عالمی کشمکش میں قرآن اعلان کرتا ہے کہ ٹھیک دس سال میں ایرانیوں پر رومی غالب آئیں گے اور اس دن مسلمانوں کو بھی خوشی نصیب ہوگی۔ یاد رہے کہ ” بِضْعَ سِنِیْنَ“ کا ہندسہ ایک سے دس تک بولا جاتا ہے۔ اس دور کے تجزیہ نگار اور سیاست دان خاص کر اہل مکہ اس اعلان کو دیوانے کی بڑ سمجھتے تھے، لیکن وہی ہوا جو قرآن مجید نے اعلان کیا تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ مسلمانوں کی ہمدردیاں ایران کے مقابلے میں رومیوں کے ساتھ تھیں کیونکہ رومی اہل کتاب تھے گو ان کی مذہبی حالت بگڑ چکی تھی۔ اس کے باوجود عیسائی اپنے آپ کو توحید کے دعوے دار اور آخرت پر ایمان لانے والے سمجھتے تھے، ان کے مقابلے میں ایرانیوں نے یزدان اور ہرمن کے نام پر دو خدا بنا رکھے تھے۔ وہ ان کی عبادت کرتے تھے اس کے ساتھ ایرانیوں کی غالب اکثریت آگ کی پوجا بھی کرتی تھی۔ اسی بنا پر مشرکین کی ہمدردیاں خسرو پرویز کے ساتھ تھیں اور مسلمانوں کے جذبات رومیوں کے ساتھ تھے۔ رومیوں کو شکست ہوئی تو مکہ والوں نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ اسی طرح تم بھی ہمارے مقابلے میں ناکام ہوجاؤ گے۔ ان حالات میں سورۃ روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں دو ٹوک انداز میں مسلمانوں کو خوشخبری دی گئی کہ بے شک تمہارے قریب اور ابھی، ابھی رومی شکست کھا گئے ہیں۔ لیکن ٹھیک دس سال میں یہ ایرانیوں پر فتحیاب ہوں گے اور اس سے مسلمان خوش ہوجائیں گے، اس کے ساتھ مسلمانوں کو بھی اللہ کی مدد حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس خوشخبری کا کفار کی ایک مجلس میں ذکر کیا جس کا کفار نے خوب مذاق اڑایا، سیدنا ابوبکر (رض) کی تکرار ابی بن خلف سے ہوئی تو بات اس نقطہ پر پہنچی کہ اگر رومی غالب ہوئے تو ابی بن خلف دس اونٹ ابوبکر صدیق کے حوالے کرے گا اگر ایرانیوں نے فتح پائی تو دس اونٹ ابوبکر صدیق (رض) ابی بن خلف کو دیں گے۔ اس گفتگو کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں آکر اپنی شرط کی تفصیل بتائی۔ (أَنَّ رَسُول اللَّہِ () قَالَ لأَبِی بَکْرٍ فِی مُنَاحَبَۃٍ ﴿الم غُلِبَتِ الرُّومُ﴾ أَلاَّ اِحْتَطْتَ یَا أَبَا بَکْرٍ فَإِنَّ الْبِضْعَ مَا بَیْنَ الثَّلاَثِ إِلَی التِّسْعِ )[ رواہ الترمذی : باب و من سورۃ الروم(ضعیف)] آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ” بِضْعِ“ کا لفظ ایک سے دس تک کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے ابی کے پاس جا کر تین سال کی بجائے دس سال کی شرط لگائیں۔ ابوبکر صدیق (رض) نے اس طرح ہی کیا لیکن اس مرتبہ دس اونٹوں کی بجائے سو اونٹ قرار پائے۔ یاد رہے کہ بعدازاں شریعت میں اس طرح کی شرط لگانے سے منع کردیا گیا ہے۔ (النَّبِیّ () فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ مَا بَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَیْسَتْ فِی کِتَاب اللَّہِ کُلُّ شَرْطٍ لَیْسَ فِی کِتَاب اللَّہِ فَہُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ کَان مائَۃَ شَرْطٍ کِتَاب اللَّہِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّہِ أَوْثَقُ وَالْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ )[ رواہ البخاری : باب استعانۃ المکاتب وسؤالہ الناس] نبی (ﷺ) نے لوگوں میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ کہ وہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں موجود نہیں اور ہر ایسی شرط ناجائز ہے۔ جس کا کتاب اللہ میں وجود نہ ہو اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کی کتاب برحق ہے اور اللہ کی شرائط مستقل ہیں ولاء کا حق دار وہی ہے جو غلام کو آزاد کرائے۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید کی پیشین گوئی کے مطابق رومی ٹھیک 9سال کے اندرایرانیوں پر فتح یاب ہوئے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے رومیوں کی فتح کے ساتھ ہی مسلمانوں کو بدر کے مقام پر زبردست فتح عطا فرمائی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے کیونکہ وہ غالب اور مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی مدد سے کمزور بھی فتح پاتے ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل : مکمل) 2۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران :123) 3۔ غار ثور میں اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبۃ:40) 4۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص :5) 5۔ ” اللہ“ کی مدد سے قلیل جماعتیں کثیر جماعتوں پر غالب آئیں۔ ( البقرۃ:249)