بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ الروم۔ سورۃ نمبر ٣٠۔ تعداد آیات ٦٠)
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ الروم کا تعارف: اس سورۃ کا نام الروم ہے جو اس کی دوسری آیت میں موجود ہے یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی یہ چھ رکوعات اور ساٹھ آیات پر مشتمل ہے۔ ربط سورۃ : سورۃ العنکبوت کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ جولوگ اللہ کے راستے میں کوشش کرتے ہیں اللہ تعالی ان کی ضرور رہنمائی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالی اچھے لوگوں کے ساتھ ہے سورۃ الروم میں اس بات کی عملی شہادت پیش کی گئی ہے کہ ایرانیوں کے مقابلے میں اللہ تعالی نے رومیوں کی مددفر مائی کیونکہ ایرانیوں کے مقابلے میں رومی اعتقادی اور عملی لحاظ سے اچھے لوگ تھے ۔ اور انہی ایام میں بدر کے میدان میں اللہ تعالی نے مکہ والوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی مددفرمائی ۔ اسلام کے ابتدائی دور میں دنیا کے ممالک دو بلاکوں میں منسلک تھے ایک بلاک سلطنت رومہ کے زیراثر تھا اور دوسرا بلاک فارس کے ماتحت سمجھا جاتا تھا روم اور فارس کی آپس میں ایک عرصہ سے کشمکش جاری تھی ۔ اسلام کے ابتدائی دور میں فارس روم پر غالب آ یا ۔ فارس کے لوگ آتش پرست تھے اور رومی اہل کتاب تھے کیونکہ رومی بظاہر انجیل اور عیسی علیہ السلام کو ماننے والے تھے جونہی فارس کے لوگ روم پر غالب آئے تو اہل مکہ نے مشرک ہونے کے ناطے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ جس طرح عیسائیوں پر فارسی غالب آئے ہیں اسی طرح ہی محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھیوں پر ہم غالب رہیں گے ۔ اس صورت حال میں سورۃ الروم کا نزول ہوا جس کی ابتدائی آیات میں دوٹوک الفاظ میں مسلمانوں کو خوشخبری دی گئی کہ ٹھیک دس سال کے اندر اللہ کی مدد کے ساتھ رومی فارسیوں پر غالب آ جائیں گے اور اس سے مسلمانوں کو بھی خوشی محسوس ہو گی ،لوگ ظاہری حالات کے مطابق سوچتے ہیں وہ اس وجہ سے رومیوں کی فتح کے بارے میں یقین نہیں کرتے لیکن یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے اور یقین جانو کہ اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اللہ تعالی کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں کیونکہ وہی مخلوق کی ابتدا کرنے والا ہے اور سب نے اس کی طرف ہی پلٹ کر جانا ہے یعنی اول و آخر پوری مخلوق اس کے کنٹرول میں ہے جولوگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائیں گے اور صالح اعمال اختیار کر میں گئے وہ جنت میں خوش وخرم رہیں گے اور جنہوں نے کفر اختیار کیا اور اللہ تعالی کے ارشادات کی تکذیب کی انہیں جہنم کے عذاب میں جھونکا جائے گا۔ اس بیان کے بعد اللہ تعالی نے انسان کی پیدائش ،میاں بیوی کے تعلقات لیل ونہار کا اختلاف ،لوگوں کی زبانوں اور رنگت کا فرق ، رات اور دن کے فوائد ، بارش کے ثمرات، آسمان اور زمین کا ٹھہراؤ اور قیامت کے دن لوگوں کو ان کی قبروں سے نکالنے کا ذکر فرما کر اپنی قدرتوں کی نشاندہی کی ہے پھر ایک غلام کی مثال دے کر اپنی توحید سمجھائی اور حکم دیا کہ ’’اللہ‘‘ کی توحید پر قائم رہو یہی دین کی بنیاد ہے اس کے بعد حقوق العباد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قریبی رشتہ داروں ، مساکین اور مسافر کے حقوق کا خیال رکھو۔ اس کے بعد سود کے بے برکت ہونے کا ذکر کیا اور اشارہ بتلایا ہے کہ بحر وبر میں فساد برپا ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال نہیں رکھتے ایسے لوگوں کو اللہ تعالی گا ہے بگا ہے جھنجھوڑ تا ہے تا کہ یہ اس کی طرف پلٹ آئیں مگر پھر بھی لوگوں کی اکثریت اس کی طرف رجوع کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ان لوگوں کو زمین پر چل پھر کر دیکھنا چاہیے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالی کے سوا دوسروں کو سہارا بنایا اور اس کے بندوں کے حقوق غصب کیے ان کا انجام کیا ہوا ۔ اللہ تعالی نے ان سے انتقام لے کر اپنے رسولوں اور مومن بندوں کی مدد فرمائی کیونکہ ایمانداروں کی مددکرنااللہ تعالی نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے ۔ الروم کے آخری رکوع کی ابتدا میں ارشادفر مایا کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے تمہیں ضعف کی حالت میں پیدا فرمایا اور پھر ضعف کے بعد قوت عطا کرتا ہے پھر قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپے میں مبتلا کر دیتا ہے وہ جس طرح چاہتا ہے مخلوق کو پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز کو جانتا اور ہر کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے وہ اپنی قدرت کا ملہ سے قیامت قائم کرے گا اس دن مجرموں کی درجہ بندی کی جائے گی ۔ اللہ تعالی قیامت پر ایمان نہ لانے والوں کو یا دکر وا ئیں گے کہ یہ وہی دن ہے جس کا تم انکار کیا کرتے تھے ، اس دن مجرم معذرت پر معذرت کر یں گے لیکن ان کی معذرت اور درخواست قبول نہیں کی جائے گی ۔ سورۃ کے آخر میں نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ مردوں اور بہروں کو اپنی دعوت نہیں سنا سکتے جولوگ اللہ تعالی کی ذات کا انکار اور اس کے ارشادات کو ٹھکراتے ہیں قیامت کے دن انہیں کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا اور نہ ہی ان کی فریاد یں سنی جائیں گی۔ اللہ تعالی ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر ثبت کر دیتا ہے جس وجہ سے یہ لوگ حقائق سننے اور انہیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔سورۃ کا اختتام اس بات پر کیا گیا کہ اے رسول آپ اللہ تعالی کے وعدے پر یقین رکھیں یقینا وہ آپ کی دعوت کو کا میاب فرمائے گا جولوگ آپ کی دعوت پر یقین نہیں رکھتے ان کے رویے اور مخالفت کی وجہ سے آپ کو جذباتی پن کا اظہار نہیں کرنا چاہیے ۔