أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَكْفُرُونَ
کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو با امن بنا دیا ہے حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگ اچک لئے جاتے ہیں (١) کیا یہ باطل پر تو یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری کرتے ہیں (١)
فہم القرآن: (آیت67سے68) ربط کلام : مشرکین کا ضمیر جھنجھوڑنے کے بعد انہیں ایک احسان یاد کروا کر سمجھایا گیا ہے۔ مشرکین مکہ کو جو بھی مقام حاصل تھا، اس کا پہلا اور بڑا سبب بیت اللہ کی تولیت اور مکہ معظمہ کا باسی ہونا تھا، اسی وجہ سے دنیا بھر کے پھل اور اناج مکہ میں پہنچتے ہیں، اسی بنا پر لوگ مکہ والوں کا احترام کرتے اور اسی سبب سے ہی انہیں ہر طرح کا امن حاصل تھا اور ہے۔ حالانکہ اس زمانے میں حجاز کے علاقہ میں دن دہاڑے سفر کرنا انتہائی مشکل تھا۔ قافلوں کی صورت میں سفر کرنے کے باوجود لوگ حفاظتی گارڈ اپنے ساتھ رکھتے تھے، اس کے باوجود ڈاکوؤں، قذاقوں سے بچ نکلنا ایک معجزہ سے کم نہ تھا، اس بدامنی اور انارگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہیں احساس دلایا گیا کہ غور کرو! کہ جو احترام اور امن تمہیں حاصل ہے وہ کعبہ کی بدولت اور اس کے رب کے کرم کا نتیجہ ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ تم کعبہ کے رب پر ایمان لاتے اور اس کا شکر ادا کرتے لیکن تم کعبہ کے رب کے منکر ہو اور بتوں کے بارے میں کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ہے، یاد رکھو! جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے یا اس کی طرف سے آئے ہوئے حق کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہو سکتا۔ ظالموں کے لیے سوائے جہنم کے کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہوگا۔ (عَنْ صُفَیَّۃَ بِنْتِ شَیْبَۃَ قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَخْطُبُ عَامَ الْفَتْحِ فَقَالَ یَاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ مَکَّۃَ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضَ فَھِیَ حَرَامٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یُعْضَدُ شَجَرُھَا وَلَایُنَفَّرُ صَیْدُھَا وَلَایَاْخُذُلُقْطَتَھَا الاَّ مُنْشِدٌفَقَالَ الْعَبَّاس الاَّ الْاِذْخِرَ فَاِنَّہٗ لِلْبُیُوْتِ وَالْقُبُوْرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِلاَّ الْاِذْخِرَ) [ رواہ ابن ماجہ : باب فَضْلِ مَکَّۃَ] ” حضرت صفیّہ بنت شیبہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ (ﷺ) کو خطاب فرماتے ہوئے سنا آپ فرمارہے تھے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے لے کر قیامت کے دن تک مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے۔ یہاں کی گری ہوئی چیز صرف وہی اٹھا سکتا ہے جو اعلان کروانے کی غرض سے اٹھائے۔ عباس (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) اذخر بوٹی گھروں اور قبروں میں استعمال ہوتی ہے تو رسول اللہ (ﷺ) نے اذخر بوٹی کاٹنے کی اجازت دے دی۔“ ” حضرت انس (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا مدینہ مقام عَیْرسے ثور تک حرمت والا ہے۔ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں کسی بدعتی کو جگہ دی جائے۔ جس نے کوئی بدعت رائج کی اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت برستے رہے گی۔“ [ رواہ الخاری : باب حَرَمِ الْمَدِینَۃِ ] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو امن والا شہر بنایا ہے۔ 2۔ مشرک اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی بجائے غیر اللہ پر ایمان لاتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا قوم کو امن نصیب فرمائے تو اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 4۔ شرکیہ عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ 5۔ مشرک سب سے بڑا ظالم ہوتا ہے اور ظالموں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ تفسیر بالقرآن: بیت اللہ اور مکہ کی عظمت : 1۔ بیت اللہ دنیا میں پہلا گھر ہے جو بابرکت اور ہدایت کا مرکز ہے۔ (آل عمران :96) 2۔ بیت اللہ امن کا گہوارہ ہے۔ (البقرۃ:125) 3۔ بیت اللہ کے باسیوں سے محبت کی جاتی ہے (القریش :1) 4۔ بیت اللہ کے طواف کا حکم۔ (الحج :29) 5۔ قسم ہے اس امن والے شہر کی۔ (التین :3) 6۔ صاحب استطاعت لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض قرار دیا گیا ہے۔(آل عمران:97) 7۔بیت اللہ میں مقام ابراہیم ہے ۔( آل عمران:97) 8۔لوگ بیت اللہ کی زیارت کے لیے پیدل، سوار اور دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ (الحج :27)