وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے انھیں یقیناً جنت کے ان بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں (١) جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے (٢) نیک کام کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے۔
فہم القرآ ن: (آیت58سے59) ربط کلام : موت کا معنٰی کلیتاً ملیا میٹ ہونا نہیں یہ تو ” اللہ“ کے حضور پیش ہونے کا ذریعہ ہے۔ وہاں نیک لوگوں کو بڑے، بڑے انعامات سے نوازا جائے گا۔ موت ہر کسی کو آنی ہے۔ لیکن جو اپنے ایمان کی خاطر کسی چیز کو خاطر میں نہ لایا اور صالح عمل کرتا رہا، اللہ تعالیٰ اسے ضرور، ضرور جنت کے محلاّت میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہو نگی۔ جنتّی جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ان کے لیے بہترین اجر ہوگا کیونکہ وہ دنیا کے نقصانات اور ہر قسم کی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے اپنے رب پر اعتماد کرتے رہے۔ صبر کا معنٰی تکلیف کے وقت حوصلہ کرنا اور مستقل مزاجی کے ساتھ حق بات پر قائم رہنا ہے۔ توکل کا معنٰی ہے کہ مشکل ترین حالات میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی مدد پر بھروسہ کیا جائے۔ جنت کی ایک جھلک : (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مائۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی جنم دھرتی میں بیٹھا رہا۔ صحابہ نے عرض کی اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ مقام ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے۔ اگر اسے تکلیف آتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ مسائل: 1۔ سچا ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت عنایت فرمائے گا۔ 2۔ نیک لوگ مشکل کے وقت صبر اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: صبر کا حکم اور اجر : 1۔ نبی (ﷺ) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج :5) 2۔ صبر اہم کاموں میں سے اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف :35) 3۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ :153) 4۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 5۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 6۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے۔ (الزمر :10)