سورة العنكبوت - آیت 53

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ لوگ آپ سے عذاب کی جلدی کر رہے ہیں (١) اگر میری طرف سے مقرر کیا ہوا وقت نہ ہوتا تو ابھی تک ان کے پاس عذاب آچکا ہوتا (٢) یہ یقینی بات ہے کہ اچانک ان کی بے خبری میں ان کے پاس عذاب آپہنچے (٣)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت53سے55) ربط کلام : نبی معظم (ﷺ) سے دیگر معجزات مانگنے کے ساتھ کفار یہ بھی مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے اور دھمکاتے رہتے ہو وہ آتا کیوں نہیں؟ جواباً فرمایا گیا ہے کہ آپ (ﷺ) سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں لیکن انہیں بتلائیں کہ عذاب کا ایک وقت مقرر ہے۔ وہ کسی کے جلدی کرنے سے اپنے وقت سے پہلے نازل نہیں ہوتا۔ البتہ جب نازل ہوتا ہے تو اس قدر اچانک نازل ہوتا ہے کہ کوئی بھاگنا چاہے تو بھاگ نہ سکے اور کوئی بچنا چاہے تو اس سے بچ نہیں سکتا۔ جس عذاب کا یہ لوگ بار بار مطالبہ کرتے ہیں۔ انہیں بتلائیں کہ ” اللہ“ چاہے گا تو وہ تمہیں دنیا میں ہی آلے گا اگر انہیں یقین نہیں آرہا تو عاد، ثمود اور قوم لوط کی بستیاں دیکھیں کہ عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کا کیا حشر ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کی رسّی ڈھیلی کر رکھی ہے لیکن جہنم تو بہرحال کفار کا انتظار کر رہی ہے جو ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہوگی اور اوپر سے جہنّم کے ملائکہ انہیں جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کیا کرتے تھے یہ وہی ہے۔ لہٰذا اس کا مزہ چکھو اب اس سے کبھی نکل نہیں پاؤ گے۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ جہنم کا عذاب ان سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ﴿لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِّنِ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہُ یَاعِبَادِ فَاتَّقُوْن﴾[ الزمر :16] ” ان کے اوپر اور نیچے سے بھی آگ بھی چھائی ہوگی یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پس اے میرے بندو میرے عذاب سے بچو۔“ ﴿نَار اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ اِِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُوْصَدَۃٌ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ﴾ [ ہمزہ : 6تا9] ” اللہ“ کی آگ خوب بھڑکائی ہوئی ہے جو دلوں پر چڑھ جائے گی وہ ان پر ہر طرف سے بند کردی جائے گی اور اونچے ستونوں میں ہوگی۔“ (عَنْ سَمُرَۃَ ابْنِ جُنْدُبٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ)[ رواہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کو ٹخنوں تک، بعض کو گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردنوں تک پہنچی ہوگی۔“ مسائل: 1۔ نبی اکرم (ﷺ) سے کفار بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب آتا ہے تو اچانک آیا کرتا ہے۔ 3۔ جہنّم کفار کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوگی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی گرفت اور عذاب کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جو اپنے وقت سے پہلے نازل نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن: جہنم کے عذاب کا ایک منظر : 1۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ:24) 2۔ جہنم پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم :6) 3۔ مجرم جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان :12) 4۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ:81) 5۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق :30) 6۔ جہنم کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کی طرح بلند ہوں گے۔ ( المرسلٰت :32)