فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا (١) ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا (٢) اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا (٣) اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا (٤) اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا (٥) اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے (٦)۔
فہم القرآن: ربط کلام : متکبرین کو مختلف قسم کے عذاب میں مبتلا کیا گیا ان میں سے کسی ایک کو بھی ” اللہ“ کی گرفت سے کوئی نہ بچا سکا۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کے دوسرے جرائم کے ساتھ سب سے بڑا جرم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا تھا۔ قوم عاد کو شدید ترین آندھی کے ساتھ پٹخ پٹخ کر زمین پردے مارا۔ قوم ثمود کو کلیجہ پھاڑ دینے والی دھماکہ خیز آواز اور شدید زلزلے نے آلیا اور پھر ان پر نامزدپتھر برسائے گئے۔ قارون کو اس کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ قوم نوح کو طوفان بادو باراں اور ہولناک سیلاب کے ساتھ تباہ کیا گیا۔ فرعون اور اس لشکر کو بحر قلزم میں ڈبکیاں دے دے کر غرق کیا گیا۔ سب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا انھوں نے اپنے آپ پر خود ہی ظلم کیا تھا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی ﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بے شک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے۔“ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِی وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلاَ تَظَالَمُوا۔۔) [رواہ البخاری : باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر نبی کریم (ﷺ) سے حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر ظلم حرام قرار دیا ہے اور تم بھی، آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔“ ﴿مَا یَفْعَلُ اللَّہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآَمَنْتُمْ وَکَان اللَّہُ شَاکِرًا عَلِیمًا﴾ [ النساء :147] اللہ تعالیٰ کو تمہیں سزا دینے سے کیا فائدہ اگر تم شکر گزار ہوجاؤ اور ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والا اور علم رکھنے والا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ 2۔ لوگ اپنے ظلم کی وجہ سے ہی پکڑے جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: پہلی اقوام پر مختلف قسم کے عذابوں کا نزول : 1۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ (النحل :45) 2۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود :67) 3۔ قوم عاد کو تیز و تند ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقۃ :6) 4۔ قوم لوط کی بستی کو الٹاکر دیا اور ان پرکھنگر والے پتھر برسائے گئے۔ (الحجر :74) 5۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ :50) 6۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ :65) 7۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت :40)