وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور مدین کی طرف (١) ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو قیامت کے دن کی توقع رکھو (٢) اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ (٣)
فہم القرآن: (آیت36سے37) ربط کلام : قوم لوط کی تباہی کے بعد قوم مدین کی تباہی کا تذکرہ۔ 1۔ اہل مدین بھی اپنے پیش رو اقوام کی طرح شرک جیسے غلیظ اور بد ترین عقیدہ میں مبتلا تھی۔ شرک وہ بیماری ہے جسے امّ الامراض کہنا چاہیے۔ قوم مدین کے اندر وہ تمام اخلاقی اور اعتقادی بیمار یوں نے جنم لیا۔ جن میں قوم نوح سے لے کر قوم لوط کے لوگ ملوث چلے آرہے تھے۔ اس امّ الامراض کی جڑ کاٹنے کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز دعوت توحید سے کرتے ہیں۔ (الاعراف، آیت :85) 2۔ قوم مدین نہ صرف عقیدہ کی خیانت میں مرتکب ہوئی بلکہ گاہک سے پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود ماپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے۔ ادائیگی کے وقت چیز مقررہ وزن اور پیمائش سے کم دیتے۔ دوسروں سے لیتے تو طے شدہ وزن سے زیادہ لینے کی مجرمانہ کوشش کرتے۔ (الاعراف، آیت :85) 3۔ یہ لوگ پیشہ ور ڈاکو تھے ان کے علاقے سے گزرنے والے مسافروں کی عزت و آبرو اور مال و جان محفوظ نہیں تھے۔ (الاعراف : 86، ھود :85) 4۔ یہ لوگ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی زبردست مخالفت اور نافرمانی کرنے والے تھے۔ (ھود :89) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نصیحتیں : 1۔ اے میری قوم ایک اللہ کی عبادت کرو، ماپ تول میں کمی ڈاکہ زنی اور فساد فی الارض سے توبہ کرو۔ اگر میری بات مان جاؤ تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ہر لحاظ سے تھوڑے اور کم تر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں کثرت سے نوازا۔ (الاعراف : 85، 86) ” اے میری قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور میری بات مانو۔ میں پوری ایمانداری کے ساتھ تمھیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور اس پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر میرے رب کے ذمہ ہے۔“ (الشعراء : 176تا180) قوم کا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جواب : اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقۂ عبادت کو چھوڑ دیں اور اپنے کاروبار کو اپنے طریقہ کے مطابق نہ کریں ؟ ھود : 78۔ تم پر اے شعیب ( علیہ السلام) کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء :185) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی مزید نصیحت : ” اے میری قوم میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے وافر رزق عطا فرمایا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں وہی کچھ کروں جس سے تمھیں منع کرتا ہوں۔ میں اللہ کی توفیق سے صرف اصلاح کی غرض سے یہ بات کہتا ہوں۔ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے اور میں ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“ (ھود :88) قوم کا جواب : ” اے شعیب! تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمھیں اپنے آپ میں کمزور دیکھتے ہیں، اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم تجھے پتھر مار مار کر رجم کردیتے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔“ (ھود، آیت :91) حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ارشاد : ” میری قوم کیا تم اللہ تعالیٰ سے میری برادری کو بڑا سمجھتے ہو اور تم برے اعمال سے باز نہیں آتے۔ لہٰذا تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو اور عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔“ (ھود : 90تا95) قوم حضرت شعیب (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہے : ” اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں بس تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے اگر تو سچا ہے۔“ (الشعراء : 185تا187) قوم شعیب پر اللہ تعالیٰ کا عذاب : قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو ان پر بلاشبہ عذاب عظیم نازل ہوا۔ ( الشعراء :189) ظالموں کو ایک کڑک نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ ان کے گھر ایسے ویران ہوئے جیسے ان میں کوئی بسا ہی نہ ہو۔ یاد رکھو اہل مدین پر ایسی ہی پھٹکار ہوئی جس طرح قوم ثمود پر پھٹکاری کی گئی۔ مفسرین نے لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سات راتیں، آٹھ دن گرمی اور حبس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ نہ وہ تہہ خانوں میں آرام کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی درخت کے سائے تلے سکون پاسکتے تھے۔ وہ انتہائی کرب کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلے تو ایک بادل ان پر سایہ فگن ہوا۔ جب سب کے سب لوگ بادل تلے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے برسنے لگے۔ زمین زلزلہ سے لرزنے لگی اور پھر ایسی دھماکا خیز چنگھاڑ گونجی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اوندھے منہ تڑپ تڑپ کر ذلیل ہو کر مرے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا لاشوں کو خطاب : ﴿فَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ﴾ [ الاعراف :93] حضرت شعیب (علیہ السلام) ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اے میری قوم میں نے نہایت خیر خواہی کے ساتھ اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ لہٰذا اللہ کے نافرمانوں پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ مسائل: 1۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ” اللہ“ کی عبادت اور آخرت کی جوابدہی کی تلقین فرمائی۔ تفسیربالقرآن قوم مدین کی تباہی کے اسباب : 1۔ قوم مدین شرک جیسے سنگین جرم میں ملوث تھی۔ (ھود :84) 2۔ ناپ تول میں کمی و بیشی کرنے والے لوگ تھے۔ (ھود :85) 3۔ ڈاکو اور راہ زن تھے۔ (الاعراف :85) 4۔ ایمان والوں کو کفر پر مجبور کرتے تھے۔ (الاعراف :89) 5۔ حضرت شعیب پر جھوٹا ہونے کا الزام لگایا۔ ( الشعراء :186) 6۔ حضرت شعیب کو سحر زدہ قرار دیا۔ ( الشعراء :185) 7۔ حضرت شعیب کی پیروی کو نقصان کا باعث قرار دیا۔ (الاعراف :90) 8۔ حضرت شعیب کی نماز کو ان کے لیے طعنہ بنایا۔ ( ھود :87) 9۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم مخالفت برائے مخالفت کرتی تھی۔ ( ھود :89) 10۔ شعیب (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکیاں دیں۔ (ھود :91) 11۔ اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں بس اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے۔ (الشعراء : 185تا187)